‘Shameful’ Currency Game کرنسی کا ’شرمناک‘ کھیل

ایس اے ساگر
ملک بھر میں پانچ سو اور ہزار روپے کے کرنسی نوٹوں کو اچانک منسوخ کرنے سے ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ جمعرات کے روز لوگوں کا بینکوں میں زبردست ازدحام تاریخی نوعیت کا حامل رہا۔ ہزار اور پانچ سو کے کرنسی نوٹ کو ختم کر کے کرنسی کے بغیر لین دین کا انتظام کرنے والی کمپنی پے ٹی ایم، کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ پے ٹی ایم کے ذریعے لوگ بغیر کسی چارج کے موبائل سے ہی اپنے تمام بلوں کی ادائیگی ،شاپنگ اور تمام اخراجات کر سکتے ہیں۔ پے ٹی ایم نے اپنے اشتہارات میں مودی کی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے انہیں مبارکباد دی اور لکھا، ”اب اے ٹی ایم نہیں پے ٹی یم کرو۔‘ان اشتہارات پر دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہاہے کہ ” اس فیصلہ کا سب سے بڑا فائدہ پے ٹی ایم کو ہوگا فیصلے کے اگلے دن ہی وزیر اعظم اشتہار میں دکھائی دے رہے ہیں۔“ایک اور ٹوئیٹ میں انھوں نے لکھاہے کہ، ”شرم کی بات ہے، کیا لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے وزیر اعظم کسی نجی کمپنی کے اشتہار میں آئیں۔ کل اگر یہ کمپنیاں کچھ غلط کرتی ہیں تو ان کے خلاف کون کارروائی کرے گا۔“دلی کے وزیر صحت ستیندر جین نے پوچھا کہ پی ٹی ایم کو اپنے اشتہار میں وزیراعظم کی تصویر کے استعمال کی اجازت ایک ہی دن میں کیسے مل گئی؟ اپنی ٹوئٹ میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم ریلائنس جیسی سِم کے بعد اب پے ٹی ایم کے برانڈ امبیسڈر ہیں۔جبکہ پرشانت بھوشن نے لکھا کہ ہے کہ”حیرت کی بات ہے کہ پے ٹی ایم نے مودی کی تصویر کے ساتھ اشتہار جاری کیا ہے تو کیا اسے پہلے سے معلوم تھا۔“اس تنازع کے بعد پے ٹی ایم کے بانی وجے شیکھر نے کیجریوال کی ٹویٹس کا جواب دیا۔ انھوں نے لکھاہے کہ،”’اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہمارے ملک کو ہوگا ہم تو صرف ایک ذریعہ ہیں۔“دوسری جانب نوبت یہاں آن پہنچی ہے کہ کمی بیشی کے ساتھ نوٹوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ کمی بیشی کے ساتھ نوٹوں کی خرید و فروخت پر اہل علم کی رائے قابل غور ہے ۔دار الافتاءجامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا سے جب مسئلہ دریافت کیا گیا کہ آٹھ نو نومبر کی شب کو جب حکومتِ وقت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ پانچ سو اور ہزار کے نوٹ لیگل ٹینڈر Legal Tender نہیں ہوں گے، یعنی ان کا چلن مارکیٹ میں بند ہوجائے گا،لہٰذا جس کسی کے پاس پانچ سو اور ہزار کے نوٹ ہوں، وہ تیس دسمبر تک بینک یا ڈاک گھر میں جمع کرواسکتے ہیں، نیز جمع کروائی گئی رقم آپ ہی کی رہے گی، کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے،حکومتِ وقت کے اِس اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ سو اور ہزار کے نوٹوں کا چلن کسی مصلحت سے بند کردیا گیا ہے، لیکن اس میں موجود ثمنیت ومالیت یعنی قوتِ خرید ابھی تک وہی باقی ہے، جو اِس اعلان سے پہلے تھی، اسی لئے بینک یا ڈاک گھر میں ان کو جمع کروانے پر اتنی ہی مالیت کے نئے نوٹ دیئے جا رہے ہیں،… لیکن بعض لوگ نقصان کے خوف سے یا مجبوری میں پانچ سو یا ہزار کے نوٹ دے کر ، ساڑھے چار سو، یا ساڑھے نو سو لے رہے ہیں، اور بعض لوگ موقع کا فائدہ اٹھاکر غربیوں اور مجبوروں سے زیادہ رقم وصول کرکے ، انہیں اِس کا عوض کم دے رہے ہیں،،
سودی لین دین کے مساوی:
اہل علم کے نزدیک اس طرح کا لین دین شرعاً سود ہے، جو حرام ہے، کیوں کہ موجودہ دور میں زرِ قانونی یعنی نوٹوں نے ذریعہ تبادلہ ہونے میں مکمل طور پر زرِ خِلقی یعنی سونا چاندی کی جگہ لے لی ہے، اور باہمی تمام لین دین نوٹوں کے ذریعہ انجام پاتے ہیں ، اس لئے کرنسی نوٹ پر بھی زرِ خِلقی یعنی سونا چاندی کے احکام جاری ہوں گے ، اور جس طرح زرِ خِلقی یعنی سونے چاندی کا لین دین کمی بیشی کے ساتھ ناجائز وحرام ہے، اسی طرح ایک ہی ملک کی کرنسی کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ ناجائز وحرام ہوگا، لہٰذا پانچ سو کے نوٹ کے بدلے ساڑھے چار سو،یا ہزار کے نوٹ کے بدلے ساڑھے نوسو کا لین دین شرعاً ناجائز وحرام ہے، ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ اس طرح کے سودی معاملات میں ملوث نہ ہوں۔
کاغذی کرنسی کی حقیقت:
اس سلسلہ میں ذولفقار علی رقمطراز ہیں کہ چونکہ لوگوں کے ما بین لین دین کے تمام معاملات میں مرکز و محور زَر ہی ہوتاہے، اس لئے ہر معاشی نظام میں زر اور اس کے متعلقات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ زَر کی اس اہمیت کے پیش نظر علماے اسلام نے بھی اپنی تحریری کاوشوں میں اس موضوع کے تمام پہلووں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اسلام کے قرونِ اولیٰ میں قانونی زر سونے،چاندی کے سکوں (دنانیر و دراہم) کی شکل میں ہوتاتھا مگر دورِ حاضر میں تمام ممالک کے مالیاتی نظام کی اساس کاغذی کرنسی ہے، سونے چاندی کے سکے پوری دنیا میں کہیں استعمال نہیں ہو تے۔ اسلامی نقطہ نظر سے زر کی حقیقت اور مروّجہ کرنسی نوٹوں کی شرعی حیثیت کیاہے؟ ذیل میں اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں :
کسے کہتے ہیں زر؟
زر کوعربی میں نَقد کہتے ہیں اور مشہور لغت المعجم الوسیط میں نقد کا معنی یوں لکھا ہے:
خرید و فروخت میں نقد کا معنی ہوتا ہے: وہ شے جو ادھار نہ ہو ، نیز عمدہ قسم کا درہم جس میں کھوٹ نہ ہو، اس کو ’درہم نقد‘کہا جاتا ہے۔ ا س کی جمع نقود آتی ہے۔ اور نقد اس کرنسی کو کہتے ہیں جس کے ذریعے لین دین ہوتا ہو، خواہ سونے کی بنی ہو یا چاندی کی یاان دونوں کے علاوہ کسی دوسری چیز سے۔ عمدہ اور ردّی، صحیح اور فاسد کلام کے مابین امتیاز کرنے کے فن کو بھی’نقد‘ کہتے ہیں۔ جبکہ فقہی لٹریچر میں نقد کا لفظ تین معانی کے لئے آتا ہے:
1۔سونے چاندی کی دھاتیں خواہ وہ ڈلی کی شکل میں ہوں یا ڈھلے ہوئے سکوں کی صورت میں۔ چنانچہ فقہا کی عبارات میں سونے چاندی کے لئے النقدان کا لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے۔
2۔سونے چاندی کے سکوں کے لئے چاہے وہ عمدہ ہوں یا غیر عمدہ۔ سونے چاندی کے علاوہ کسی دوسری دھات سے بنے ہوئے سکوں کو فلوس کہتے ہیں۔اس معنی کے مطابق فلوس نقد میں شامل نہیں۔
3۔ہر وہ چیز جو بطورِ آلہ تبادلہ استعمال ہو، چاہے وہ سونے کی ہو یا چاندی، چمڑے،پیتل اورکاغذ وغیرہ کی شکل میں ، بشرطے کہ اس کوقبولیت ِعامہ حاصل ہو۔عصر حاضر میں نقد کا لفظ اس تیسرے معنی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے۔
٭ جبکہ اقتصادی ماہرین نقد(زَر) کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں :
زرکی تین خصوصیات ہیں جس مادہ میں بھی وہ پائی جائیں ، وہ زر شمار ہو گا :
ذریعہ مبادلہ ہوقیمتوں کا پیمانہ ہو،دولت محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہو
بلاشبہ اسلام کے ابتدائی ادوار میں مالیاتی لین دین سونے، چاندی کے سکوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا اورسونے ،چاندی کی زر ی صلاحیت بھی مسلمہ ہے، لیکن شریعت نے زر کے لئے سونے ،چاندی کے سکوں کی شرط نہیں لگائی بلکہ اس معاملے میں بڑی وسعت رکھی ہے۔مشہور مورخ احمد بن یحییٰ بلاذری کے بقول حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اونٹوں کی کھال سے درہم بنانے کا ارادہ کر لیا تھا مگر اس خدشے سے اِرادہ ترک کر دیا کہ اس طرح تو اونٹ ہی ختم ہو جائیں گے۔ جیسا کہ بلاذری نے ان کا یہ قول نقل کیاہے:
”میں نے اونٹوں کے چمڑوں سے درہم بنانے کا ارادہ کیا۔ ان سے کہا گیا: تب تو اونٹ ختم ہو جائیں گے تو اس پرا نہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔“
امام مالک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
”اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید وفروخت کورائج کر دیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائیں تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو ا دھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا۔“
یعنی اگر چمڑا بحیثیت زر رائج ہو جائے تو اس پر بھی وہی احکام جاری ہو ں گے جو درہم ودینار پر ہوتے ہیں۔ علامہ ابن نجیم حنفی خراسان کے امیر غطریف بن عطا کندی کی طرف منسوب غطارفة نامی دراہم جن میں ملاوٹ زیادہ اورچاندی کم ہوتی تھی، کی بحث میں رقم طراز ہیں :
”ولوالجی نے ذکر کیا ہے کہ غطارفہ جب دو سو ہوں تو ان میں زکوٰة واجب ہو گی،کیونکہ اگرچہ پہلے زمانے میں یہ لوگوں کے درہم نہیں تھے مگر آج کل یہی ہیں۔ ہر دور میں اس زمانے کا رواج معتبر ہوتا ہے۔“
اس سے یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ شرعی لحاظ سے زر کے انتخاب میں سونے چاندی کی پابندی نہیں ہے، قیمتوں کو چانچنے کے لئے کسی بھی چیز کو معیار بنایا جا سکتا ہے بشرط یہ کہ اسے معاشرہ میں قبولیت حاصل ہو۔
زر صرف حکومت جاری کر سکتی ہے
اگرچہ شریعت نے زر کے انتخاب میں کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی، لیکن زر جاری کرنے کا اختیار صرف حکومت کو دیا ہے کیونکہ مالیاتی لین دین کا مکمل نظام زر کی اساس پر ہی رواں دواں ہے اور اگرہرکس و ناکس کو حسب ِمنشا زر جاری کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس سے نہایت خطرناک اقتصادی اور معاشی حالات پیدا ہو جائیں گے۔چنانچہ کویت کے فقہی انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
”امام کے علاوہ کسی کوکرنسی بنانے کی اجازت نہیں ،کیونکہ یہ اس پر ظلم ہے۔ اور امام کو یہ حق پہنچتا ہے کہ جوشخص اس کا یہ حق سلب کرے، وہ اسے سزا دے خواہ اس کی بنائی ہوئی کرنسی خالص سونے چاندی کی ہی کیوں نہ ہو۔ امام احمد کا قول ہے کہ درہم صرف حاکم وقت کی اجازت سے ٹکسال میں ہی بنائے جا سکتے ہیں ،کیونکہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو وہ بڑے مصائب میں مبتلا ہو جائیں گے۔“
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”امام کے علاوہ کسی کو درہم اور دینار بنانے کی اجازت نہیں چاہے وہ خالص ہی ہوں ،کیونکہ یہ امام کا حق ہے اور اس دوسرے کو اس لئے بھی اجازت نہیں کہ اس میں جعل سازی اور بگاڑ کا اندیشہ ہے۔“
ثابت ہوا کہ اسلامی نقطہ نظر سے حکومت ِوقت کے علاوہ کسی کوکرنسی جاری کر نے کا اختیار نہیں، کیونکہ اس طرح جعلی کرنسی وجود میں آ نے کاخدشہ ہے جوموجب ِفساد ہے۔
زر کی قدر ہونی چاہئے مستحکم:
اسلامی نظامِ معیشت کا مکمل ڈھانچہ عدل پرقائم ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ان معاملات کو ممنوع قرار دیاہے جو عدل کے منافی ہیں ، چونکہ تمام مالی معاملات در حقیقت زرہی کے گرد گھومتے ہیں اورکسی مالی معاہدے کے وقوع اور وقت ادائیگی کے درمیان زر کی قوتِ خرید میں غیر معمولی کمی سے صاحب ِ حق کا متآثر ہونا یقینی ہے جو تقاضاے عدل کے خلاف ہے، اسی بناپر بعض مسلم مفکرین افراطِ زر کو بخس،تطفیف اورملاوٹ میں شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ اسلامی حکومت کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ مناسب حد تک کرنسی کی قدرکومستحکم رکھے۔ چنانچہ الموسوعة الفقہیة میں مرقوم ہے :
”مسلمانوں کے مفاداتِ عامہ جن کا تحفظ امام کی ذمہ داری ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ زر کی قیمتوں میں ثبات پیدا کرے تاکہ اس سے خوراک اور اشیا کی قیمتیں نہ بڑھیں اور غربت میں اضافہ نہ ہو۔ اور لوگ اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کئے گے زر سے فائدہ ا ±ٹھانے کے متعلق مطمئن ہوں تاکہ وہ زر رائیگاں نہ جائے اور خلل اور فساد واقع نہ ہو۔“
مشہور محدث امام ابن قیم فرماتے ہیں :
”زر ہی وہ معیار ہے جس کے ذریعے اموال کی قیمتوں کی پہچان ہوتی ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ یہ متعین اور کنٹرول میں ہو، اس کی مالیت میں ا تار چڑھاونہ ہو،کیونکہ اگر سامانِ تجارت کی طرح زَر میں بھی ا تار چڑھاو? ہو تو ہمارے پاس اشیا کی قیمت لگانے کے لئے کوئی ثمن (زَر) نہیں رہے گا بلکہ سب سامان ہی ہو گا، حالانکہ اشیاکی قیمت لگانے کے لئے لوگ ثمن کے محتاج ہیں۔اور یہ ایسے نرخ کے ذریعے ممکن ہے جس سے قیمت کی معرفت حاصل ہواور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب اشیا کی قیمت لگانے کے لئے ایک ز ر ہو اور وہ ایک ہی حالت پر رہے۔ اور اسکی قیمت کا معیار کوئی دوسری چیز نہ ہو،کیونکہ اس صورت میں وہ خود سامان Commodity بن جائے گا جس کی قیمت بڑھتی اور کم ہوتی ہے، نتیجتاًلوگوں کے معاملات خراب ہو جائیں گے، اختلاف پیدا ہوگا اور شدیدضرر لاحق ہو گا۔“
یعنی کرنسی ایسی ہونی چاہئے جس کی مالیت میں عام اشیا کی طرح غیر معمولی کمی واقع نہ ہو بلکہ معقول حد تک مستحکم قدرکی حامل ہو ورنہ لوگ ضرر کا شکار ہوں گے۔
زر کی قدر میں کیسے لایا جا ئے استحکام؟
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کاغذی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کا رجحان چلا آرہا ہے اور آج کل تو اس کی قدر بہت تیزی سے گر رہی ہے، اس کے برعکس سونے چاندی کی قوتِ خرید خاصی مستحکم ہے، بالخصوص سونے کی قوتِ خرید میں کوئی غیر معمولی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، اگر کسی بحران یا سونے کے مقابلہ میں اشیا وخدمات کی قلت کی بنا پر ایسا ہوا بھی تو کمی کا یہ سلسلہ مستقل جاری نہیں رہا اور اس کے اسباب دور ہونے کے بعد صورت اس کے برعکس ہو گئی۔ اگر عہد ِرسالت میں سونے کی قوتِ خرید کااس کی موجودہ قوتِ خرید سے تقابل کیا جائے توکوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا۔بطورِ نمونہ دو مثالیں ملاحظہ ہوں :
قتل کی دیت سو اونٹ ہے، اگر کسی کے پاس اونٹ نہ ہوں تو وہ ان کی قیمت ادا کر دے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں آٹھ سو دینار مقرر تھی :
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دیت کی قیمت آٹھ سو دینار تھی۔“
اس کا مطلب ہے کہ عہد ِرسالت میں ایک اونٹ کی قیمت آٹھ دینار تھی۔ جدید تحقیق کے مطابق شرعی دینار کا وزن ۲۵ئ۴گرام ہے۔ (دیکھئے الموسوعة الفقیة:21،29) اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک اونٹ کی قیمت 34گرام سونا بنی، آج بھی اتنے سونے کے عوض ایک اونٹ خریدا جاسکتا ہے۔ اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اونٹ گراں ہونے پر دیت کی قیمت آٹھ سو سے بڑھا کر ہزار دینار کر دی تھی، مگر آج کل ایک سو اونٹ خریدنے کے لئے آٹھ سو دینار یعنی 3400 گرام سونا کافی ہے۔
حضرت عروہ بارقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک دینار دیا تا کہ وہ اس سے ایک قربانی یا ایک بکری خریدے۔ ا نہوں نے دو بکریاں خرید لیں ،پھر ان میں سے ایک کو ایک دینار میں بیچ دیا اور ایک بکری اور ایک دینار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔“
یعنی عہد ِ رسالت میں 25ء4 گرام سونے کے عوض ایک بکری خریدی جا سکتی تھی، آج بھی سونے کی قوتِ خرید یہی ہے۔
ان دو مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عہد ِرسالت سے لے کر اب تک سونے کی قدر میں غیر معمولی کمی نہیں ہوئی، اگر کسی دور میں ایسا ہوا بھی تو بعد میں معاملہ الٹ ہو گیا۔البتہ اس عرصہ کے دوران سونے کی نسبت چاندی کی قوتِ خرید میں کافی کمی آئی ہے:
عہد ِنبوی میں دس درہم (تقریباً تیس گرام) چاندی سے ایک بکری خریدی جا سکتی تھی، اس کی دلیل وہ روایت ہے جس میں اونٹوں کی زکوٰة کے ضمن میں یہ بیان ہواہے :
”جس کے اونٹوں کی زکوٰة میں جذعہ (چار سالہ اونٹ) فرض ہو اور اس کے پاس جذعہ نہ ہو تو اس سے تین سالہ اونٹ قبول کر لیا جائے گااور وہ ساتھ دو بکریاں اگر آسانی سے میسر ہوں دے گا یا بیس درہم۔“ یعنی ایک بکری کے بدلے دس درہم
لیکن آج کل اتنی چاندی میں ایک بکری نہیں خریدی جاسکتی۔ تاہم اس کمی سے اس قسم کے تباہ کن معاشی حالات پیدا نہیں ہوتے رہے جن سے لوگ کاغذی کرنسی کی وجہ سے دوچار ہیں۔ اس لئے ماہرینِ معیشت کی رائے میں کاغذی کرنسی کی قدر میں ہوش ربا تغیر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مہنگائی کے طوفانوں کا ایک ہی حل ہے کہ مالیاتی لین دین کی بنیاد سونے ،چاندی کو بنایا جائے۔ چنانچہ آج کل پوری دنیا میں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دوبارہ سونے،چاندی کے سکوں کا نظام رائج کیاجائے۔
ابن مقریزی کے نزدیک بھی نرخوں میں بے تحاشہ اضافے کا حل یہی ہے کہ ازسرنو ’معیاری قاعدئہ زر‘  Gold Specie Standardکا اِجرا کیا جائے۔ چنانچہ کویت کے فقہی انسا ئیکلوپیڈیا میں ان کی رائے یوں درج ہے:
”نرخوں میں افراتفری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مہنگائی کی موجوں کا علاج صرف یہ ہے کہ سونے اور چاندی کے زر کے استعمال کی طرف لوٹا جا ئے۔“
ان کے دور میں افراطِ زر کا جو بحران پیدا ہوا تھا، ان کی نظر میں اس کا ایک سبب سونے کی جگہ معدنی سکوں سے لین دین تھاجس سے قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ چنانچہ وہ اس پر روشنی ڈالنے کے بعد فرماتے ہیں :
”اگر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو توفیق دے دیں جن کے سپرد اس نے اپنے بندوں کے امور کر رکھے ہیں یہاں تک کہ وہ لین دین کو سونے کی طرف لے جائیں اور سامان کی قیمتوں اور اجرتوں کے دینار اور درہم سے وابستہ کر دیں تو اس سے ا مت کا بھلا اور امور کی اِصلاح ہو گی۔“
جبکہ جدید ماہرینِ معیشت کے نزدیک حکومت کا حقیقی پیداوار کو نظر انداز کرکے نوٹ چھاپنا، اشیاءو خدمات کی طلب و رسد کے درمیان عدمِ توازن،اِسراف و تبذیر،تاجروں میں ناجائز منافع خوری کا رجحان اوراشیا کی پیداواری لاگت میں اضافہ وہ عوامل ہیں جو کرنسی کی قدر میں عدمِ استحکام پیدا کرتے ہیں۔ ان مسائل کو حل کر کے کرنسی کی قدر میں استحکام پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سونے ،چاندی کے سکے لازمی شرعی تقاضا نہیں ، علاوہ ازیں سونے، چاندی کے سکوں کی پابندی ریاست کے لئے غیر ضروری زحمت کا موجب بھی بن سکتی ہے، ممکن ہے ریاست کے پاس سکے بنانے کے لئے سونے چاندی کے وسیع ذخائر موجود نہ ہوں۔ البتہ جب افراط زر کامسئلہ سنگین صورت اختیار کرجائے تو اس وقت اس کا کوئی معقول حل ہونا چاہئے جیسا کہ علما کی فقہی آرا گزر چکی ہیں۔
زر کی قسمیں :
حقیقی اعتباری
حقیقی زر کااطلاق سونے،چاندی پر ہوتا ہے۔ سونے چاندی کے علاوہ زر کی باقی تمام اقسام خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہوں ’اعتباری زر‘ کہلاتی ہیں۔سونے چاندی کو حقیقی زر اس لئے کہاجاتا ہے کہ ان کی قوتِ خریدفطری ہے، اگر بحیثیت ِ زر ان کا رواج ختم بھی ہوجائے تب بھی باعتبارِ جنس ان کی ذاتی مالیت برقرار رہتی ہے۔جبکہ اگر اعتباری زر کی زری حیثیت ختم ہو جا ئے تو سونے چاندی کی طرح اس کی افادیت باقی نہیں رہتی۔سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی ممانعت کا فلسفہ بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ یہ زر ہیں۔
زر اور کرنسی میں فرق:
کرنسی کے مقابلے میں ’زر‘ اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے، کیونکہ اس میں کرنسی کے علاوہ دوسری اشیا بھی شامل ہیں جن کو معاشرے میں آلہ مبادلہ کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس کرنسی کا اطلاق صرف کاغذی زر پر ہوتا ہے۔اسی طرح کرنسی کو ادائیگیوں کے لئے قانونی طور پر قبول کرنا لازم ہوتا ہے جبکہ عام زر میں یہ پابندی نہیں ہوتی۔ تاہم اس اعتبار سے دونوں ایک ہیں کہ زر کی طرح کرنسی بھی آلہ مبادلہ کی حیثیت سے استعمال ہونے کے علاوہ اشیا کی قیمتوں کا تعین کرتی اور قابل ذخیرہ ہوتی ہے۔
کرنسی کی تاریخ:
سونے ،چاندی کے بحیثیت ِزر استعمال ہونے سے قبل دنیامیں ‘زرِبضاعتی’یا ‘اجناسی زر’ (النقود السلعیة) کا نظام رائج تھا۔ اس سسٹم کے تحت ہرخطے کے لوگوں نے اپنے علاقے میں مقبول اور قیمتی شمار ہونے وا لی اشیا کو زر کا درجہ دیا۔بعض علاقوں میں چاول بعض میں چمڑااوربعض میں چائے زر کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ چنانچہ معروف سعودی عالم جسٹس ڈاکٹر عبداللہ بن سلیمان منیع لکھتے ہیں :
”اس نظام میں یہ طے پایا کہ ایسی اشیا کوزرِ بضاعتی قرار دیا جائے جن میں حسابی وحدت، قیمتوں کی یکسانیت، بحیثیت ِمال جمع کئے جانے کی استعداد اور قوتِ خرید موجود ہو۔ یہ اشیا نوعیت کے اعتبار سے مختلف تھیں مثلاً ساحلی علاقہ جات میں موتیوں کو بطورِ ثمن (زر) استعمال کیا گیا۔ سرد علاقوں میں پشم کو ثمن ٹھرایا گیا۔جبکہ معتدل موسم کے حامل ممالک میں آباد لوگوں کی خوشحال زندگی اور آسودہ حالی کی بنا پر خوبصورت اشیا (مثلاً قیمتی پتھروں کے نگینے ،عمدہ لباس، ہاتھی کے دانت اورمچھلیوں وغیرہ) کو کرنسی قرار دیا گیا۔ جاپان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں چاول کو بطورِ کرنسی استعمال کیا گیا جبکہ وسط ِایشیا میں چائے، وسطی افریقہ میں نمک کے ڈلوں اور شمالی یورپ میں پوستین کو کرنسی قرار دیاگیا۔“
رومی بادشاہ جولیس سیزر (دورِ حکومت 60تا 44ق م) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی فوج کو تنخواہ نمک کی شکل میں ملتی تھی۔ نمک کو لاطینی میں’سیل‘ کہتے ہیں ، اسی سے لفظ Salary نکلا ہے جس کامعنی’تنخواہ‘ ہوتا ہے۔
چونکہ اشیا ضائع ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور ان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی بھی آسان نہیں ہوتی، اس لئے یہ نظام مستقل جاری نہ رہ سکا۔لوگوں نے اس کی جگہ سونے چاندی کا استعمال شروع کر دیا۔ابتدا میں سونے چاندی کے وزن کا ہی اعتبار ہوتا تھا۔سکوں کا رواج بعد میں شروع ہو ا۔سکے کب وجود میں آئے ؟اس کے متعلق وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ البتہ قرآنِ مجید سے یہ پتہ چلتاہے کہ حضرت یوسف?کے دور میں دراہم موجود تھے، کیونکہ ان کے بھائیوں نے ا ±نہیں دراہم کے عوض بیچاتھا :
”انہوں نے اس کو انتہائی کم قیمت، جو گنتی کے چند درہم تھے، کے عوض فروخت کر دیا۔“
واضح رہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا دور 1910 تا 1800ق م ہے۔
اسی طرح کہتے ہیں کہ سونے کا سکہ سب سے پہلے لیڈیا کے بادشاہ کروسس (دورِ حکومت: 560تا541 ق م) نے متعارف کروایا۔
عہد ِنبوی کی کرنسی:
بعثت ِ نبوی کے وقت عرب میں لین دین کا ذریعہ درہم و دینار تھے، لیکن گنتی کی بجائے وزن کا اعتبار کیا جاتا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ درہم و دینار عرب کے مقامی سکے نہ تھے بلکہ ہمسایہ اقوام سے یہاں آتے تھے۔
٭درہم ساسانی سکہ تھا جو عراق کے راستے عرب پہنچتا اور لوگ اس کی بنیاد پر باہم لین دین کرتے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کوبرقرار رکھا۔ یہ دراہم چونکہ مختلف وزن کے ہوتے تھے، اس لئے جب نصابِ زکو ة کے لئے درہم کا وزن مقررکرنے کی نوبت آئی تومسلمانوں نے ان میں سے متوسط کو معیار بنایا، چنانچہ اسی کو شرعی درہم سمجھا گیا۔ ایک قول کے مطابق یہ کام حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور میں جبکہ دوسرے قول کے مطابق بنو ا میہ کے دور میں ہوا۔جو صورت بھی ہو، تاہم آخر کارجس شرعی درہم پراجماع ہوا وہ وہی ہے جو عبد الملک بن مروان کے دور میں بنایاگیا۔لیکن فقہا اور مورخین نے ثابت کیا ہے کہ یہ درہم اپنی اصلی حالت پر نہیں رہا تھا بلکہ مختلف شہروں میں اس کے وزن اور معیار میں کافی تبدیلی آتی رہی ہے۔جدید تحقیق کی روشنی میں اس درہم کا وزن975ء 2 گرام چاندی ہے۔
٭ اسی طرح دینار رومیوں کی کرنسی تھی جو براستہ شام یہاں آتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باقی رکھا حتی کہ خلفاے راشدین اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی رومی دینار کو ہی کرنسی کی حیثیت حاصل رہی۔ جب مسند ِخلافت عبدالملک بن مروان کے پاس آئی تو انہوں نے زمانہ جاہلیت کے دینار کے مطابق ایک دینار جاری کیا جس کو ‘شرعی دینار’کہاجاتا ہے، کیونکہ اس کا وزن اس دینار کے برابر تھا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا تھا۔
٭ معمولی اشیا کے لین دین میں سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھاتوں یعنی تانبے وغیرہ سے بنے سکے جنہیں ف ل وس کہاجاتا ہے، بھی استعمال ہوتے۔ جیسا کہ حدیث میں دیوالیہ شخص کے متعلق اَلم فلِس کالفظ آتا ہے۔ شارحِ بخاری حافظ ابن حجر اپنی مایہ ناز تالیف’فتح الباری‘ میں فرماتے ہیں :
”شرعی معنوں میں’مفلس‘ وہ شخص ہے جس کے قرضے اس کے پاس موجود مال سے زیادہ ہو جائیں۔ اسے مفلس اس لئے کہا جاتا ہے کہ پہلے درہم و دینار کا مالک تھا لیکن اب فلوس پر آگیا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہ شخص صرف معمولی مال (فلوس) کا مالک رہ گیا ہے۔ یا ایسے شخص کو مفلس اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ اس کو فلوس جیسی معمولی چیز میں ہی تصرف کا حق ہو تا ہے، کیونکہ وہ فلوس کے ذریعے معمولی اشیا کا لین دین ہی کرتے تھے۔“
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں بھی ف ±ل ±وس کا تذکرہ موجود ہے :
”ا ±نہوں نے اپنی لونڈی سے کہا کہ اس کے بدلے ’فلوس ‘ خرید لو۔“
سونے چاندی کے سکے وجود میں آنے کے بعدبھی بعض علاقوں میں مخصوص اشیا زر کی حیثیت سے استعمال میں رہیں۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ جب سوڈان گیا تو اس وقت وہاں نمک کے ساتھ ہی لین دین ہوتاتھا،چنانچہ وہ لکھتا ہے :
”سوڈان میں نمک بطورِ روپیہ کے چلتا ہے اور سونے چاندی کا کام دیتا ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر لیتے ہیں اور انکے ذریعے خریدو فروخت ہوتی۔پھرمختلف اسباب کی بنا پر آہستہ آہستہ درہم دینار کا رواج ختم ہوتا چلا گیااور ان کی جگہ کرنسی نوٹوں نے لے لی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیامیں کرنسی نوٹوں کا ہی دور دورہ ہے کیونکہ یہ آسان ترین ذریعہ مبادلہ ہے۔
 کب ایجاد ہوئے نوٹ؟
کہا جاتاہے کہ اہلِ چین نے 650ء سے 800ءکے درمیان کاغذ کے ڈرافٹ بنانے شروع کئے تھے، انہی ڈرافٹ نے آگے چل کرکرنسی نوٹوں کی اشاعت کا تصور دیا۔ اسی لئے کاغذکی طرح کرنسی نوٹ بھی اہل چین کی ایجاد شمار ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے کرنسی نوٹ910ء میں چین میں ایجاد ہوئے۔ ابن بطوطہ جو 1324ءسے1355ءکے درمیان چین کی سیاحت پر گیاتھا، چین کے نوٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتاہے :
”اہل چین درہم یادینار کے ذریعہ سے خرید وفروخت نہیں کرتے بلکہ سونے اور چاندی کو پگھلا کر ان کے ڈلے بنا کر رکھ چھوڑتے ہیں اور کاغذ کے ٹکڑوں کے ذریعہ سے خرید وفروخت کرتے ہیں۔ یہ کاغذ کاٹکڑاکفدست(ایک بالشت)کے برابر ہوتاہے اور بادشاہ کے مطبع میں اس پر مہر لگاتے ہیں۔ ایسے پچیس کاغذوں کو بالشت کہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ لفظ دینار کے معنی میں مستعمل ہوتاہے۔ جب یہ کاغذ کثرت استعمال سے یا کسی اور طرح پھٹ جاتاہے تو وہ دارالضرب میں لے جاتے ہیں اور اس کے عوض نیا لے آتے ہیں۔ یہ دارالضرب ایک بڑے درجہ کے امیر کی تحویل میں ہے۔ جب کوئی شخص بازار میں درہم یا دینار لے کر خرید وفروخت کرنے جاتاہے تو وہ درہم یا دینار نہیں چلتے، لیکن وہ درہم یا دینار کے عو ض یہ کاغذ لے سکتاہے اور ان کے عوض جو چیز چاہے خرید سکتا ہے۔“
مشہورمورخ ابن مقریزی جب بغداد گئے تھے توانہوں نے بھی وہاں چین کے نوٹوں کا مشاہدہ کیا تھا۔چین کے بعد جاپان دوسرا ملک ہے جہاں چودھویں صدی عیسوی میں کرنسی نوٹ جاری ہوئے۔یوروپ میں پہلا باقاعدہ نوٹ 1661ءو’اسٹاک ہام بینک‘سویڈن نے جاری کیا۔ انگلینڈ نے 1695میں کرنسی نوٹ جاری کئے۔ہندوستان میں پہلا نوٹ 5 جنوری1825 کو ’بنک آف کلکتہ‘ نے جاری کیاجس کی مالیت دس روپے تھی۔تقسیم وطن کے بعد پاکستان میں کرنسی نوٹ یکم اکتوبر 1948کو جاری کئے گئے۔ابتدامیں تونوٹ کی پشت پر سو فیصد سونا ہوتا تھا،لیکن بعد میں مختلف معاشی وجوہ کے باعث سونے کی مقدار سے زائد نوٹ جاری کئے جانے لگے اورمختلف اَدوار میں یہ تناسب بتدریج کم ہوتا رہا یہاں تک کہ1971سے نوٹ کا سونے سے تعلق بالکل ختم ہو چکا ہے۔
کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت:
اب نوٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے، اس بارے میں علما کی مختلف آرا ہیں :
پہلی رائے یہ ہے کہ نوٹ اصل میں اس بات کا دستاویزی ثبوت ہیں کہ حاملِ نوٹ نے اس نوٹ کے جاری کنندہ سے اتنا سونا یا چاندی وصول پانا ہے۔ اس کے حق میں سب سے مضبوط دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ نوٹ پر یہ ا لفاظ تحریر ہوتے ہیں:
”حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا“
اس رائے کے مطابق نوٹوں کے ساتھ سونا چاندی خریدنا جائز نہیں ، کیونکہ نوٹ کے ساتھ خریداری کا مطلب حقیقت میں اس سونے یا چاندی کے ساتھ خریداری ہے جو اس نوٹ کی پشت پرہے اور شرعی اعتبار سے سونے کی سونے یا چاندی کی سونے کے ساتھ بیع میں دونوں طرف سے موقع پر قبضہ شرط ہے جو یہاں مفقود ہے، کیونکہ خریدار نے سونے کے بدلے سونا نہیں دیا بلکہ اس کی رسید دی ہے۔چنانچہ تفسیر’اضواء البیان ‘کے مصنف علامہ محمد امین شنقیطی اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں :
”یہ نوٹ چاندی کی رسید ہیں اور بیچی گئی چیز وہ چاندی ہے جس کی یہ رسید ہیں۔جو ان پر لکھی عبارت پڑھے گا وہ اس رائے کا درست ہونا سمجھ جائے گا۔اس رائے کے مطابق نوٹوں کی سونے چاندی کے بدلے بیع چاہے نقد ہوجائز نہیں ، کیونکہ جس چاندی کی رسید دی جاتی ہے وہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے دونوں طرف سے موقع پر قبضہ کی شرط نہیں پائی جاتی۔“
جس طرح اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹوں کے بدلے سونا چاندی خریدنا جائز نہیں ، اسی طرح نوٹوں کے ساتھ مشارکہ یا بیع سلم درست نہیں ، کیونکہ اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹ دَین Debt کی رسید ہے جبکہ شرعی اعتبار سے شراکت اور سلم میں سرمایہ نقد ہونا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں یہ رائے اختیار کرکے ایک ملک کی کرنسی کا دوسرے ملک کی کرنسی سے تبادلہ یامنی چینجر کا کاروبار بھی نہیں ہوسکتا،کیونکہ یہ سونے کے بدلے سونے کی ادھار اور کمی بیشی کاساتھ بیع ہو گی جو شرعاًدرست نہیں۔مگر یہ موقف درست نہیں کیونکہ اب نوٹ قرض کی رسید نہیں رہا جیسا کہ قبل ازیں بیان ہو ا ہے بلکہ اب یہ خود قانونی زر بن چکا ہے اور ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں کہ حکومت کوئی بھی چیزبطورِ زر اختیار کر سکتی ہے۔اب نوٹ پر لکھی اس عبارت ”حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا۔” کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکومت اس کی ظاہری قیمت کی ذمہ دار ہے۔ جسٹس علامہ عمر بن عبدالعزیز المترک فرماتے ہیں :
”نوٹ رسید نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ گم یا تلف ہو جائے تو اس کا مالک جاری کنندہ سے مطالبہ نہیں کر سکتا خواہ اس کے پاس ہزار گواہ ہوں اور اگر یہ حقیقی رسید ہوتا تو اس کو ضروریہ اختیار ہوتا، کیونکہ قرض مقروض کے ذمے ہوتا ہے، رسید تلف ہونے سے ضائع نہیں ہوتا۔“
بعض نامور علما کے نزدیک نوٹ بذاتِ خود سامان(جنس) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مشہور مالکی فقیہ علیش مصری کی بھی یہی رائے ہے۔علامہ محمد امین شنقیطی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
”جن حضرات نے ان کے سامانِ تجارت ہونے کا فتویٰ دیا ہے، ان میں ‘نوازل ‘اور ‘شرح مختصر خلیل ‘ کے مصنف مشہور عالم علیش مصری بھی شامل ہیں۔ بعد کے اکثرمالکی علمانے بھی ان کے فتویٰ کی پیروی کی ہے۔“
اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نوٹ قیمت بننے کی صلاحیت سے عاری ہے، کیونکہ یہ نہ سوناہے اور نہ چاندی، یہ تو سامان کی مانندہیں۔ اس نظریہ کے مطابق ایک نوٹ کا دو نوٹوں کے ساتھ تبادلہ درست ہے۔ اسی طرح اس نظریہ کے مطابق نوٹوں میں زکوٰة اسی صورت واجب ہو گی جب ان کو فروخت کر کے نفع کمانا مقصود ہو۔یعنی بذات خود ثمن کی بجائے نوٹ سامانِ تجارت قرار پاسکتاہے۔مزید برآں ا س قول کی بنیاد پر نوٹ سے مضاربہ اور بیع سلم بھی جائز نہیں بنتی، کیونکہ یہ قیمت نہیں ، سامان ہے۔چونکہ یہ نظریہ خطرناک نتائج کا حامل ہے، اس لئے عصر حاضر کے اہل علم اس کی تائید نہیں کرتے۔
تیسری رائے یہ ہے کہ نوٹ سونے، چاندی کا متبادل ہیں۔ اگراس کے پیچھے سونا ہو تو سونے اور اگر چاندی ہو توچاندی کامتبادل ہو گا۔ ڈاکٹر عبداللہ بن سلیمان منیع لکھتے ہیں :
” اس نظریہ کے قائلین کی دلیل یہ ہے کہ قیمت کے اعتبار سے یہ نوٹ اپنی اس اصل کی طرح ہے جس کے یہ بدل ہیں یعنی سونا اور چاندی، کیونکہ ان کا اصل چاندی یا سونا ان کی پشت پر ان کے زرِ ضمانت کے طور پر موجود ہے اور مقاصد ِشرعیہ کاتعلق تو اصل اور حقائق سے ہے نہ کہ الفاظ اور ان کی بناوٹ سے۔“
اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹوں کے باہمی لین دین میں سود کے احکام بھی جاری ہوں گے اور جب یہ دو سو درہم چاندی یا بیس دینار سونے کی قیمت کے مساوی ہوں تو سال کے بعد ان پرزکوٰة بھی واجب ہو گی۔اسی طرح ان کے ذریعے بیع سلم بھی درست ہو گی۔
لیکن یہ رائے بھی کمزور ہے، کیونکہ اس کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ نوٹ کی پشت پر سونا یاچاندی ہے حالانکہ امر واقع میں ایسا نہیں۔ چنانچہ جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان منیع اس کی خود تردید کرتے ہیں :
”یہ نظریہ بھی حقیقت ِواقعہ کے مطابق نہ ہونے کی بنا پر قابل التفات نہیں ،کیونکہ اس کا دارومدار کرنسی نوٹوں کی اصل پر ہے اور اصل جیسا کہ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ تو کرنسی نوٹوں کی پشت پر ہے نہیں۔بلکہ اکثر ممالک کے نوٹ محض ساکھ کی بنا پر ،زبانی ضمانتوں اور حکومتوں کے جاری کردہ ہونے کی بنا پر رائج اور قابل قبول ہیں ، ورنہ ان کے پیچھے نہ تو سونا ہے نہ چاندی۔ بلکہ کچھ ایسے ہیں جنہیں پراپرٹی کی ضمانت حاصل ہے اور کچھ کو محض اقتدار کی ضمانت۔ لہٰذا یہ نظریہ خلافِ واقعہ ہونے کی بنا پر بہت کمزور ہے۔
نوٹ کی شرعی حیثیت کے متعلق چوتھی رائے یہ ہے کہ نوٹ دھاتی سکوں (فلوس ) کی طرح اصطلاحی زر ہیں :
”مال کی چوتھی قسم وہ ہے جو اصل میں تومال ہے، لیکن اصطلاحی لحاظ سے زر ہے جیسے دھاتی سکے ہیں …جب یہ معلوم ہوگیا تو، سنو نوٹ کا تعلق چوتھی قسم سے ہے جو حقیقت میں سامان ہے کیونکہ یہ کاغذ ہے اور اصطلاحی طور پر زر ہے، کیونکہ اس سے زر جیسا معاملہ کیاجاتاہے۔“
لیکن یہ رائے بھی قوی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اہل علم کے ہاں دھاتی سکوں میں زر کی بجائے سامان کا پہلو غالب ہے، یہی وجہ ہے کہ جمہور فقہا نہ توکمی بیشی کے ساتھ ان کا تبادلہ مکروہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کو شراکت و مضاربت میں رآس المال بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔نیزان میں زکوٰةبھی اسی صورت واجب قرار دیتے ہیں جب ان کو فروخت کر کے نفع کمانا مقصود ہو۔ جیساکہ الموسوعة الفقہیة میں ہے :
”امام ابوحنیفہ ،امام ابو یوسف اورمالکی فقہا کاقول ،حنابلہ کا صحیح مسلک اور شافعیوں کاصحیح ترین نقطہ نظر یہی ہے کہ دھاتی سکوں میں ربا نہیں ہے بلکہ یہ سامان کی طرح ہیں۔“
”امام ابو حنیفہ ،ابویوسف ، مالکی (مشہور مسلک کے مطابق) شافعی اور حنبلی فقہا کا خیال ہے کہ دھاتی سکوں کے ذریعے مضاربہ درست نہیں کیونکہ مضاربہ عقد ِ غرر ہے جو ضرورت کی بنا پر جائز قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ انہی چیزوں کے ساتھ خاص رہے گاجو اکثر مروّج ہوں اور ان کے ساتھ تجارت آسان ہو اوروہ نقدیاں ہیں۔“ یعنی دھاتی سکے زر نہیں۔
”شافعی اور حنبلی فقہا کی رائے میں دھاتی سکے سامان کی طرح ہیں ، چنانچہ ان میں زکوٰة اسی وقت واجب ہو گی جب یہ تجارت کی غرض سے ہوں۔“
ان فقہا کے نقطہ نظر کی تائیداس سے بھی ہوتی ہے کہ کسی حدیث میں دھاتی سکوں کی زکوٰةکا تذ کرہ نہیں ملتا حالانکہ عہد ِنبوی میں یہ موجود تھے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اگر یہ زر ہوتے تو سونے چاندی کی طرح ان کی زکوة کا بھی ذکر ہوتا۔ حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ کی اس روایت کہ انہوں نے اپنی لونڈی سے کہا:
”اس کے فلوس خرید لو۔“
سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں دھاتی سکے سامان شمار ہوتے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہائے احناف کے نزدیک دھاتی سکے زر ہیں ، اسی لئے وہ ان میں زکوٰة بھی واجب قرار دیتے ہیں ، لیکن امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہم اللہ کے نزدیک متعاقدین دھاتی سکوں کو متعین کر کے ان کی زر ی حیثیت ختم کر سکتے ہیں ، اس صورت میں یہ سامان کے حکم میں ہوتے ہیں اوران حضرات کے نزدیک کمی بیشی کے ساتھ ان کا تبادلہ بھی صحیح ہو تا ہے۔ان شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ فقہا کی نظر میں دھاتی سکے( فلوس) یا تو زر ہی نہیں یا پھر ناقص زر ہیں ، اسی لئے وہ ان سے زرکاوصف ختم کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔جو صورت بھی ہو بہر حال کرنسی نوٹوں کو ان پر قیاس نہیں کیا سکتا،کیونکہ نہ تودھاتی سکوں کی طرح ان میں سامان کا پہلوغالب ہے۔ یہ تو محض کاغذ کے ٹکڑے ہیں ، ان کی جو حیثیت بھی ہے، وہ ان کی پشت پر حکومتی ضمانت کی وجہ سے ہی ہے اور نہ ہی متعاقدین کو ان کی زری حیثیت کالعدم کرنے کااختیار ہے، کیونکہ یہ قانونی زر ہیں۔اس سلسلہ میں پانچویں اورآخری رائے یہ ہے کہ نوٹ سونے چاندی کی طرح مستقل زر ہے، کیونکہ نوٹوں میں زر کی تما م صفات پائی جاتی ہیں۔ قیمتوں کا پیمانہ اور قابل ذخیرہ بھی ہیں اور لوگ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے یہی زر کی حقیقت ہے جیسا کہ ہم شروع میں امام مالک کا یہ قول نقل کر آئے ہیں :
”اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید وفروخت کورائج کر دیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائے تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو ا دھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا۔“
اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی چیز کو خواہ وہ چمڑا ہی کیوں نہ ہو بطور زر اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اس کی تائید امام ابن تیمیہ کے ‘مجموع الفتاوی’ میں ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:
”اس کا خلاصہ یہ ہے کہ درہم و دینار کی کوئی ذاتی اور شرعی تعریف نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق عرف اور اصطلاح سے ہے، کیونکہ درہم و دیناربذاتِ خود مقصود نہیں ہوتے بلکہ یہ باہمی لین دین کا ذریعہ ہیں۔ اسی لئے یہ قیمت شمار ہوتے ہیں چونکہ باقی اَموال سے فائدہ ا ٹھانا مقصود ہوتا ہے، اس لئے ان کی یہ حیثیت نہیں ہے۔ وہ ذریعہ جس کے مادہ اور صورت سے کوئی غرض وابستہ نہ ہو وہ جیسا بھی اس سے مقصود حاصل ہوجاتاہے۔“
چونکہ دلائل کے لحاظ سے یہ نقطہ نظر قوی ہے اور اس پر کئے گئے اعتراضات بھی زیادہ وزنی نہیں ، اس لئے دور حاضر کے علمائے کرام کی اکثریت،بیشترمفتیانِ کرام کے فتاوی اور اہم فقہی اداروں کی قرار دادیں اسی کے حق میں ہیں۔ جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان منیع کی بھی یہی رائے ہے۔
سعودی کبار علماءکی مجلس نے بھی اس کو ترجیح دی ہے۔
جسٹس علامہ عمر بن عبدالعزیز المترک بھی اسی قول کے حق میں ہیں۔چنانچہ وہ مذکورہ بالا آرا اور ان کے دلائل کا تجزیہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
”کاغذی زر کے متعلق علما کی آرا اور ہر ایک کے نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ لینے سے ہمیں ان کا قول راجح معلوم ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ نوٹ مستقل کرنسی ہے اور سونے چاندی کی طرح ان میں بھی سود کے اَحکام جاری ہوتے ہیں۔ ربا، سود اور تلف کی صورت میں ضمان کے مسائل میں ان پر مکمل طور پر سونے چاندی کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔“
دیگر اقوال کی خرابیاں واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
”دوسرے اقوال یا تو معاملات میں لوگوں کومشکل میں ڈال دیں گے یا لین دین کا دروازہ ہی بند کر دیں گے حالانکہ اس کے بغیر چارہ نہیں یا پھر سود کا دروازہ چوپٹ کھول دیں گے اور نقدین کی زکوٰة ضائع کرنے کے حیلوں کا دروازہ کھولیں گے۔“

امت کے سمجھنے کی بات:
حکومت کو برا بھلا کہنے والے سمجھ لیں کہ اسلامی سیاست کی دو اہم بنیادیں ہیں۔مفتی شکیل منصور القاسمی رقمطراز ہیں کہ نسل، وطن، رنگ اور قومیت کی بنیاد پر مسلمانوں کی تفریق وتقسیم کی ذہنیت ہی اسلام اور مسلمانوں کے لئے سب سے بڑاموذی ہے۔۔۔۔پیغمبر اسلام نے جاہلیت کے اس عفریت کی شہ رگ پہ کاری ضرب لگائی تھی،اور اس کی بنیاد پر تیشہ چلایا تھا۔مدینہ پہونچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست کی تشکیل فرمائی تو سب سے پہلے اس کی سیاست کی پہلی بنیاد یہ رکھی کہ مہاجرین وانصار کے درمیان رشتہ مواخات قائم فرمایا۔یہ اسلامی سیاست کی پہلی اینٹ تھی۔اس سے صدیوں پرانے اختلافات ونزاعات سر ہوئے۔الفت ومحبت کی لاثانی فضا قائم ہوئی۔اسلامی ریاست کی دوسری بنیاد یہ رکھی گئی کہ مدینہ کے قرب وجوار کے یہودیوں سے معاہدہ ہوا ۔جس کا سب سے اہم منشور یہ تھا کہ باہمی اختلاف کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ سب کے لئے واجب التعمیل ہوگا نیز یہود مدینہ مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کو ظاہرا یا باطنا کوئی امداد فراہم نہیں کریں گے۔پھر مسلمانوں کے مابین آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دستور نافذ فرمادیا کہ عدل وانصاف اور نیکی وتقوی کسی کی مدد کرنے یا کسی سے مدد حاصل کرنے کا معیار ہونا چاہئے۔جو شخص عدل وانصاف اور نیکی پر ہو اس کی مدد کرو۔خواہ رنگ ونسل، خاندان وزبان ووطن کے لحاظ سے تم سے مختلف ہی کیوں نہ ہو ! اور ظالم وگنہگار کی مدد نہ کرو اگرچہ وہ تمہارا باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو ۔اسلامی سیاست کی یہ دو ایسی فولادی وآہنی بنیادیں تھیں جن کے ہوتے ہوئے قیصر وکسری کی عالمی طاقتیں بھی اس چھوٹی سی اسلامی ریاست کا بال بیکا نہ کرسکیں۔شروع ہی سے اسلام دشمن اس مشترک اسلامی برادری کو منتشر کرنے کے لئے سرگرداں تھے۔برادری اور قومیت ووطنیت کے حربہ کے ذریعہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔وحدت اسلامی کو ٹکڑوں میں بانٹ دینے کے لئے موجودہ دور کے صیہونیوں نے وطنیت وقومیت کا پھر منظم شیطانی جال بچھایا ہے۔اس جال میں پھنس کر عام دنیا کے مسلمان باہمی جنگ وجدال کے شکار ہیں۔عرب میں مصری شامی حجازی یمنی عراقی کو ایک دوسرے سے بر سر پیکار کردیا گیا۔عجمیوں میں ہندستانی پاکستانی بلوچ سندھی پنجابی کشمیری باہم آویزش کے شکار ہیں۔ اور دشمنان اسلام ہماری اس آویزش کا کھیل کھیل رہے ہیں۔اسی لئے وہ ہر میدان میں ہم پر غالب ہیں اور ہم غلامانہ ذہنیت کے ساتھ کبھی بش کبھی کلنٹن کبھی اوبامہ اوراب ٹرمپ کی طرف نظریں اٹھاکے نجات دہندہ کے بطور دیکھ رہے ہیں۔
”ان ھذ امة واحدة “
پر ایمان رکھنے والے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ کشمیر کا ظلم وستم انڈیا پاکستان کا معاملہ ،فلسطین وشام میں قتل خونریزی کو مشرق وسطی کا معاملہ قرار دے کر تماشائی بنے ہوئے ہیں۔نبی آخر الزمان نے جس عصبیت جاہلہ سے پوری شدت کے ساتھ جنگ کی تھی۔ آج یہ عفریت انہی مسلمانوں کے گھروں میں پروان چڑھ رہا ہے اور یہی اس کے رکھوالی بنے بیٹھے ہیں۔زیادہ بکھیڑہ میں جائے بغیر صرف اسلامی سیاست کی مذکورہ دوبنیادوں کو ہر اسلامی ملک میں ترجیحی بنیادوں پر نافذ کردیا جائے تو پہر عالمی منظر قابل دید ہوگا۔اس موقع سے مسدس حالی کے دو بند پیش کرنے کو جی چاہتا ہے
خصومت سے ہیں اپنی گو خواریاں سب
نزاعوں سے باہم کی ،ہیں ناتواں سب
خود آپس کی چوٹوں سے ہیں خستہ جاں سب
یہ ہیں متفق اس پر ،پیر وجواں سب
کہ نا اتفاقی نے کھویا ہے ہم کو
اسی جزر ومد نے ڈبویا ہے ہم کو
یہ مانا کہ کم ہم میں ہیں ایسے دانا
جنہوں نے حقیقت کو ہے اپنی چھانا
تنزل کو ہے ٹھیک ٹھیک اپنے جانا
کہ ہم ہیں کہاں اور کہاں ہے زمانا
یہ اتنا زبانوں پہ ہے سب کے جاری
کہ حالت بری آج کل ہے ہماری
ضرورت ہے کہ خارجی بھروسوں اور اعانتوں پہ توکل کرنے کی بجائے مسلمانوں بالخصوص مسلم حکمرانوں کی اندر کی صلاحیت اور بنیادوں کو ابھارا جائے اس سے جو قوت پیدا ہوگی وہ ملت کی اپنی حقیقی قوت ہوگی۔
والسلام علیکم

NOTE BADALNE KI SURATEN
AAJ KA SAWAL NO.837
1000,(ek hazaar) ya 500 (panchso) ki note dekar kam paise masalan 900 (nawso) ya 450 (charso pachaas) rupiye lena kaisa hai?
Agar na jaIz ho to abhi Ke haalaat me jaiz shakal kiya hai?
Jawab:
Hazaar ya panchso rupiye dekar kam paise ka len den rupiye ke muqabale me rupiye hone ki wajah se soodee (interest) muamalah hai.
Lene wala aur dene wala dono sakht gunehgar aur la’anat ke mustahiq hai.
aisa hargiz nahi karna chahiye.
Jaiz shakal yeh hai ke hazaar ke muqabale me nawso diye jaye aur saath me misal ke taur par ek das rupiyewala pen wagairah koi cheez di jaye to 900 rs.ke muqabale me 900 rs.aur so ruiye kam de raha hai is ke muqabalah aur badle me das rupiyewala pen ho jaye.
dusri misal ek lakh ke muqabalah me 85000 hazar aur 5000 rs. ka mobile 15000 me bech diya jaye to 85,000 ke muqabalah me 85,000 aur 15000 ke muqabalah aur aewaz me panch hazar wala mobile de diya jaye taake rupiye badle me barabar sarabar rupiya aur kami ke aewaz me mobile yani koi cheez ho jaye.
FIQHI MAQALAT
HIDAYAH RABIA BABUR RIBA SE MAKHOOZ
Mufti Imran Ismail Memon.
Ustaze Darul Uloom Rampura, Surat, Gujarat, India.
http://www.aajkasawal.page.tl
http://www.deeneemalumat.net
Update Islamic Group App
Naye category add hue h alhamdulillah.._
https://play.google.com/store/apps/details…


‘Shameful’ Currency Game
By: S A Sagar
Mobile payment platform Paytm Wednesday said it has recorded a 435% increase in its overall traffic within hours of Prime Minister Narendra Modi’s ban on Rs 500 and Rs 1000 notes as a step to clean up black money and move towards a cashless economy. It is “utterly shameful” that Prime Minister Narendra Modi’s photo was being used by private online payment firm Paytm, According to reports, November 10, 2016, Delhi Chief Minister Arvind Kejriwal said on Thursday. “Utterly shameful. Do people want their PM to model for private companies? Tomorrow, if these companies do wrongdoings, who will act against them?” the Aam Aadmi Party leader asked in a tweet. “Paytm biggest beneficiary of PM’s (Modi’s) announcement (demonetization of big currency). Next day PM appears in its ads. What’s the deal, Mr PM?” Mr Kejriwal asked. The AAP on Wednesday termed the government’s demonetization of Rs. 500 and Rs. 1,000 notes as a “Tughlaki farman” (Tughlak’s diktat) and said the move was made to favour big businessmen who hold black money. “This is the biggest and most ambitious step ever to crack down on black money and fake currency. We stand by the government in its efforts towards taking black money out of the equation and offering a major boost to the Indian economy,” Madhur Deora, CFO, Paytm said in a statement. “Since Paytm is fast becoming synonymous to all kinds of payments, we are happy to announce we have registered a strong surge in volume on our platform,” he added. The company said it has registered a 200% hike in number of app downloads and 250% surge in number of overall transactions and transaction value. The number of saved cards also grew by 30%, pointing at a strong set of repeat customers the platform has now acquired.

111116 currency ka sharamnaak khail by s a sagar

Leave a comment

Up ↑