Truth behind making of Pani Puri آپ کو کراہیت کیوں نہیں آتی؟

شریک حیات نے فرمائش کی اور آپ رک گئے بھرے بازار میں گول گپے کھانے کیلئے ، آپ کو علم ہی نہیں کہ جس میدہ ، سوجی کو پانی میں گوندھا جاتا ہے اس کے لئے ہاتھ نہیں بلکہ پیروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔مزید یہ کہ اس کی تیاری میں نہ جانے کتنی الم غلم چیزیں شامل کرکے لاگت کو کم اور نفع کو  زیادہ کیا جاتا ہے۔ غنیمت ہے کہ متعدد نیوز چینلوں نے اس کی بھانڈا پھوڑ ویڈیو اپ لوڈ کر رکھی ہیں۔ کسی کو شک ہو تو سماجی روابط کی سائٹوں پر موجود بے شمار ویڈیوز کو ملاحظہ فرمالیں۔ مضمون کے آخیر میں بندہ نے چند ایک کے لنک بھی پیش کئے ہیں۔کسی کو شک ہوتو ملاحظہ فرمالیں۔
کتنے ہیں اس کے نام؟
جنوبی ایشیاکے بالخصوص ہند، پاک میںپانی پوری کی ابتدا بھارتی علاقے ماگھدھا سے ہوئی، جو آج کل جنوبی بہار ہے، وہاں اسے پھولکی کہتے ہیں۔اسے بہت سے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ہریانہ میں یہی پانی کے پتاشے یا گول گپے کہلاتے ہیں ۔نئی دہلی، پنجاب، جموں و کشمیر، ہریانہ، جھاڑکھنڈ، بہار، مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش، مغربی بنگال میں پانی کے بتاشے یا پتاشی بھی کہلاتے ہیں جبکہ راجستھان، اتر پردیش میں پانی پوری۔بھارت کے ہمسایہ ملک نیپال کے پہاڑی علاقے، مہاراشٹر ،ممبئی اور مہاراشٹرکے تمام حصوں میں، مدھیہ پردیش، گجرات، کرناٹکا، تمل ناڈو میں پانی پوری ،بنگلہ دیش، مغربی بنگال (بھارت) میں پھچکا،اڑیسہ، جنوبی جھاڑکھنڈ، چھتیس گڑھ، حیدرآباد،دکن، تیلنگانہ میں گپ چھپ،گجرات کے کچھ حصوں میںپکوڑی، نیپال کے تیرائی حصے میں، مدھیہ پردیش میں پھلکی، مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد میں ٹکی کے نام سے مشہور یہ پکوان بازار میں فروخت ہونے سے قبل کس طرح تیار ہوتا ہے ،
جب سر پھوڑنا ٹھہرا:
کھانے سے پہلے ذراملاحظہ فرمالیں کہ اب جب بازار میں کھانا ہی ٹھہرا، ہلکے پن کو اوڑھنا ہی ٹھہرا تو پاکی ، ناپاکی صفائی ،ستھرائی کی بھلا کسے فکر ہوگی ،
وفا کیسی، کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تاہم حسن ظن کا تقاضا ہے کہ نفیس مزاج شریف النفس لوگ ضرور سنبھل جائیں گے اور گھر والوں کو
گول گپے کا پانی عرف کھٹے کو تیار کرنے کے لئے
کیا کچھ لانا ہوگا؟
پودینہ ایک کپ
ہری مرچ دو سے چار عددیا حسب ذائقہ
لیموں کا جوس تین کھانے کے چمچ
چینی ایک کھانے کا چمچ یا حسب ذائقہ
نمک ایک چائے کا چمچ یا حسب ضرورت
املی پیسٹ تین کھانے کے چمچ
کالا نمک ایک چائے کا چمچ
ادرک پاوڈر ایک چوتھائی چائے کا چمچ
ہینگ ایک چوتھائی چائے کا چمچ
زیرہ پاوڈر ایک کھانے کا چمچ
کالی مرچ آدھا چائے کا چمچ
پانی چار کپ یا حسب ضرورت مہیا کروائیں گے
اور
پوری کے لئے:
میدہ ایک چوتھائی کپ
سوجی تین چوتھائی کپ
پانی آدھا کپ یا حسب ضرورت
تیل فرائینگ کے لئے لاکر دیں گے بلکہ اس کی تیاری میں حسب توفیق ہاتھ بھی بٹائیں گے کہ ؛
کھٹے پانی کےلئے: تمام اجزاءکوسوائے پانی کے مکس کرکے باریک پتلا سا پیسٹ تیار کر لیں۔
بلینڈ کرتے ہوئے ضرورت کے مطابق مزید پانی شامل کریں۔
اچھا ذائقہ بنانے کے لئے ہری مرچوں کو استعمال کریں اور پھر لیموں کا رس، چینی اور نمک بھی حسبِ ضرورت شامل کریں۔
یاد رہے آپ اسے مزید سپائسی بنانے کے لئے مزید پانی کو شامل کریں اور اسے کافی حد تک پتلا بنائیں۔
کٹھے پانی کا ذائقہ اچھا کرنے کے لئے ایک دن کے لئے اسے فریج میں رکھ دیں۔
پوری کے لئے ڈو تیارکرنا:
سوجی اور میدے کو مکس کرلیں۔
پھر حسبِ ضرورت پانی ڈو میں شامل کرتے رہیں اور اسے اچھی طرح سے گوندھ لیں۔
اب اسے گیلے کپڑے سے دس منٹ کے لئے ڈھانپ دیں۔
دو کچن کے ٹاول لے کر ایک کو شیٹ پر یا کسی ہموار سطح پر بچھا دیں۔
ڈو کے ساٹھ عدد چھوٹے چھوٹے پیڑے بنائیں اور انھیں نمی والے کپڑے سے ڈھانپ دیں۔
ہر پیڑے کو دو انچ کے قطر دائرے میں رول کریں۔
اب انھیں ایک ٹاول پر رکھ کر دوسرے سے ڈھانپ دیں۔
یہی عمل تمام پوریوں کے ساتھ کریں۔
پوری بنانے کے لئے:
تیل درمیانی آنچ پر گرم کریں۔
تیل کی مقدار فرائنگ پین میں ڈیڑھ انچ تک ہونی چاہئے۔
تیل کی گرمائش چیک کرنے کے لئے ڈو کا ایک ٹکڑا تیل میں ڈالیں۔
اگر تیل پوری طرح تلنے کے لئے تیار ہو تو پوریاں تلنا شروع کردیں اور پہلی پوری بیل کر تیل میں گولڈن براو ¿ن ہونے تک تَل لیں۔
اسی طرح ایک ہی وقت میں چھ سے آٹھ پوریاں اکٹھے تلی جا سکتی ہیں۔
جب اِنکی رنگت گولڈن براو ¿ن ہو جائے تو انھیں پیپر ٹاول پر نکالتے جائیں۔ اس طرح سے ان کا تیل پیپر میں جذب ہوتا جائے گا۔
یاد رکھیں کہ جب پوریوں کو تلنے کے بعد فرائنگ پین سے باہر نکالیں تو تیل کو پہلے سے ہی فرائنگ پین میں اچھی طرح سے نچوڑ لیں۔
پانی پوری سرو کرنے کے لئے:
پوری کے درمیان سوراخ نکالیں اور اس میں ابلے ہوئے آلو یا چنے شامل کریں اور کھٹے پانی میں ڈبو کر سرو کریں۔خود بھی کھائیں، اوروں کو بھی کھلائیں نیز بازار کی گندگی سے بچیں….

Truth behind making of Pani Puri

By S A Sagar
The golgappa, also known as panipuri, panipuri, pani ke bataashe, paipuri, term used in Western India, phuchka is a popular street snack in India, Pakistan, Bangladesh, and Nepal. It consists of a round, hollow puri, fried crisp and filled with a mixture of flavored water (“pani”), tamarind chutney, chili, chaat masala, potato, onion and chickpeas. It is generally small enough to fit completely into one’s mouth. It is a popular street food dish in Mumbai, Delhi, Karachi, Lahore, Dhaka, Kolkata and Kathmandu.
Light on stomach, high on flavour, Golgappa is every chaat lover’s favourite snack. A good plate of Golgappa is enough to refresh your senses and make you feel happy about life. You can always go and have this mouth-watering delicacy anytime from your favourite chaat corner, but what happens when the craving sets in, but it’s not feasible for you to go outside? This recipe will come to your rescue and it is very simple one.

Pani Puri can be made completely out of wheat flour or wheat flour and Suji (semolina) mixed in equal proportions or just Suji. We will be preparing Golgappas with wheat flour and Suji mixed together.
INGREDIENTS
1/2 cup Wheat flour/Maida
1 cup Suji (semolina)
Oil

Take wheat flour, Suji, oil and baking powder in a bowl and mix the contents properly. With the help of water, knead a dough for hard Puri (press dough well while kneading).

Cover the dough and leave it aside for 20 minutes to ferment. Pani Puri can be made using two methods:

METHOD 1

Break off small pieces off the dough. Cover these pieces with a cloth. Roll all of the pieces, one at a time into a circle (at least 2 inches in diameter). Cover these rolled Puris with a cloth and keep them aside.

METHOD 2

Break a big round (guava sized) piece off the dough, roll this round piece into a circle (2 millimeters thick and 10-12 inches in diameter). With the help of a cover, cut as many round Golgappas as possible, take the small circles and keep them on a plate. Mix the dough that is leftover to the main dough and repeat the same process till you have made Golgappas of the entire dough.
Golgappa recipe Cut as many round Golgappas as possible, take the small circles and keep them on a plate. (Source: nishamadhulika.com)

Now take one Golgappa at a time and roll it a little making it more thin. You can roll them length wise to make long Golgappas or circular to make round golgappas.

Knead a hard dough for Golgappas

Press with a frying ladle while frying to make them puffy.

As Golgappas become puffy, lower the flame of the gas.
golgappa2 As Golgappas become puffy, lower the flame of the gas. (Source: nishamadhulika.com)

Until they cool off leave the Golgappas without covering else they’ll turn soft.

Pour oil in a pan (kadhai) and heat. Take 4-5 Puris and put them in oil, keep them submerged by pressing them with a ladle for some time. This will make them puffy.

After Golappa is puffed, turn sides and fry on a low flame. When they turn brown take them out and put them on a plate. Now fry another 4-5 Puris. Similarly fry all the Pani Puris and take them out on a plate.
golgappa3 Fry all the Pani Puris and take them out on a plate. (Source: nishamadhulika.com)

HOW TO PREPARE GOLGAPPA WATER

METHOD 1
Take Jal Jeera masala and mix it in water. Add lemon and salt to this water for a good taste. Water for Pani Puri is ready. Now peel boiled potatoes and mix roasted Jeera and salt to it.

Prepare sweet Chutney and try the Golgappas to see how good they have become.

METHOD 2
You can also make your own mix for Pani Puri
Ingredients
Green coriander(Dhaniya) – 1/2 cup
Mint – 1/2 cup
Tamarind/Amchur powder – 2 tsp(or juice of 2 lemons)
Green chilly – 2
Ginger – 1 inch long piece
Roasted Jeera – 2 tsp
Black pepper powder – 1/4 tsp( if you prefer spicy)
Salt – add to taste (1 tsp)
black salt – 1 tsp
golgappa5 Golgappe are ready (Source: nishamadhulika.com)

Break off the stems off the coriander and mint leaves, wash them with clean water.

Grind all the spices along with coriander and mint in a mixer to make a fine paste.

Dissolve the paste in 2 litres of water.

Money is a matter of….. کاغذی کرنسی کا کھیل

ترقی کی دوڑ میں 133 ویں مقام تک گرنے پر دولت مشترکہ کے ہاتھوں فضیحت سے ابھی ملک سنبھلا بھی نہیں تھا کہ کیجری وال نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ جے این یو میں نجیب کی پراسرار گمشدگی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہہ بیٹھے کہ بی جے پی والے نہ ہندوں کے ہیں نہ مسلمانوں کے بلکہ اپنے اقتدر کی ہوس کے ایسے غلام ہیں کہ اپنے باپ کو بھی بیچ کھائیں۔ اب ایسے مضبوط اشاروں کو بھی عوام نہ سمجھ پائیں تو اس میں بھلا حکومت کا کیا قصور ہے۔ رہ گئے جمن شبراتی، تو ان کا تعلق تو پہلے ہی منڈی، مسجد اور گھر سے کمزور پڑا ہوا ہے۔ بصورت دیگر منڈی کو سمجھنے کی صورت میں معیشت کے ٹھیکیداروں کو سمجھ لیتے اور مسجد سے تعلق کی صورت میں وفاقی حکومت کے کرتا دھرتا وں کی صہیونی لابی سے یگانگت کو کتاب سنت کی روشنی میں پرکھ لیتے۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ گھر اتنا بے قابو ہوچکا ہے کہ عدالتوں میں امت کے ہزاروں عائلی معاملات الجھے پڑے ہیں۔ قائدین کو ذرا بھی شعور ہوتا تو وہ شریعت بچاو کی بجائے شریعت پھیلاو کا نعرہ بلند کررہے ہوتے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سرجیکل اسٹرائک پر خم ٹھونکنے والوں نے کھلم کھلا اسرائیل کی شاگردی کا اعلان نہیں کیا تھا؟ بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس پر کئی روز سے نئے نوٹوں کے بنڈل شائع ہورہے تھے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بھولے بھالے صارفین سمجھ نہیں پائے۔اگر ذرا سا غور کرلیتے تو انھیں 500 اور 1000 روپے کے نئے نوٹوں کو لطیفہ پر مبنی پوسٹ سمجھنے کی بجائے پرانے نوٹوں کی واپسی کا پروانہ گردانتے۔صاف ظاہر کہ اس مخمصہ سے بڑی مچھلیاں تو صاف نکل گئی ہوں گی!
ذہنی غلامی کے شکار:
کاغذی کرنسی میں یو ں بھی ’منی‘ کہلانے کی صلاحیت کہاں ہوتی ہے۔ لین میں ذریعہ بن جاتی ہے، اس کی قیمت کو شمار کیا جاسکتا ہے، صاحب معیار ہے لیکن ذحیرہ نہیں کیا جاسکتا۔ سیدھی سی بات ہے کہ اس کی لگام ہنڈی کی طرز پراجرا کرنے والے کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں ریزرو بینک بھلے ہی کاغذی کرنسی جاری کو جاری کرنے کا مختار ہو، لیکن اس کے گورنر کی ڈور وفاقی حکومت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ یہ امر کسی سے مخفی نہیں ہے کہ صدیوں پہلے صیہونی دجالیوں نے دنیا کی تسخیر کا نہ صرف راز معلوم کر لیاتھا بلکہ کاغذی کرنسی کے کھیل کو بھی سمجھ لیا تھا۔ صدیوں کے تجربوں، اور مشکلات برداشت کرنے کے بعد اس کھیل کو سیکھ لیا تھا۔ صہیونی استعمار نے اسی گر کے ذریعہ دنیا کو مسخر کر لیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ننانوے اعشاریہ نو فیصد غیر یہودی انسان اعشاریہ ایک فیصد یہودیوں کے معاشی، سیاسی، سائنسی سماجی ،ذہنی غلام ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دنیا کی تسخیر کا راز اور گر کیا تھا کہ جس کے ذریعہ یہودیوں نے دنیا کو مسخر کر لیا؟
اقتدار کا نسخہ:
دراصل دجالی یہودیوں نے جان لیا تھا، مان لیا تھا کہ جس کے پاس دولت ہوگی، ہتھیار ہوں گے، معیشت پر قبضہ ہوگا، اس کے پاس اقتدار ہوگا۔ یہودیوں نے دنیا کی تجارت، بینکاری پر اجارہ داری کے ذریعہ دنیا کی دولت کو اپنے دجالی خزانے میں بھر لیا۔قرون وسطیٰ میں بھی یہودی جہاں کہیں، جس کسی ملک کے کسی بھی شہر میں رہے، وہاں کے شاہی دیوانوں پر اپنی دولت کے ذریعہ اثر و رسوخ حاصل کرتے رہے۔ دولتمند یہودی بادشاہوں، وزیروں، امرا کو قرض دیتے تھے۔قرون وسطیٰ کے مسیحی حکمران ان کے محتاج رہتے تھے۔ اس دولتمند یہودیوں کو درباری یہودی Court Jew کہا جا تا تھا۔ سترہویں اٹھارہویں صدی یہودیوں نے عالمی معیشت پر اپنے دجالی پنجے گاڑنے شروع کئے۔ یوروپ کی ایسٹ انڈیا اور ویسٹ انڈیا کمپنیوں نے اس سلسلہ میں اہم کردارادا کیا جن کے کرتا دھرتا یہودی ہی تھے۔ ان کمپنیوں کے ذریعے یہودیوں نے دنیا کی سیاست پر غلبے کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد بینکوں کے نظام کے ذریعہ دنیا بھر کی سیاست کے ادر گرد جال بن لیا۔ تجارت، کثیر الملکی کمپنیوں اور عالمی و قومی بینکوں کے دجالی نظام کے ذریعہ اقوام عالم غلام بنتی چلی گئیں۔
بینکوں کا مکڑ جال:
آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ دور حاضر کے وہ ادارے ہیں کہ جس کے ذریعہ دنیا کی سیاست اور معیشت پر یہودیوں نے پس پردہ کنٹرول حاصل کیا ہوا ہے۔متعدد ممالک کے بدعنوان، عیش پرست حکمرانوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس اپنے عوام کو گروی رکھا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ایسے ممالک کی پالیسیوں کو اپنی مرضی کے مطابق طے کرواتے ہیں جبکہ اس سے انحراف کرنے والوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی جاتی ہے۔ جب تک ان دجالی مالیاتی اداروں سے آزادی نصیب نہیں ہوگی، اس وقت تک دنیا کے کسی بھی خطہ میں بدعنوانی، ناانصافی اور مظالم کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔پتہ نہیں وہ وقت کب آئے گا جب مظلوم اقوام آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی سے نجات حاصل کر نے کے لئے جامع انقلابی اقدامات کی طرف متوجہ ہوں گی۔ 
کالی دولت پر شکنجہ:
فی الحال تو عوام الناس کو گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، افواہوں پر توجہ نہ دیں، آپ کے پیسے بیکار نہیں ہوں گے، گڑ بڑ والوں کی شامت آئی ہے جبکہ صبر اور اطمینان سے کام لینے والوں کے درجات بلند ہوں گے، کچھ دنوں خرچ پر توجہ دیں، ادھر ادھر پیسے رکھنے والے پریشان ہیں، آپ ہم کیوں پریشان ہوں؟ عنوان قائم کیا گیا ہے کہ کالے دھن کے مسئلہ پر قابو پانے کے لئے محکومت نے آٹھ اور نو نومبر کی درمیانی رات سے پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے کرنسی نوٹ ختم کردی گئی ہے۔ واضح کردیا گیا ہے کہ جن لوگوں کے پاس پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹ ہیں، وہ انھیں ڈاک خانوں اور اپنے بینک کھاتوں میں جمع کرواسکیں گے اور جمع کروائی جانے والی رقم کے لئے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے جبکہ یہ رقم آپ کی ہی رہے گی۔ لیکن جن لوگوں کے پاس کالی دولت ہے، اگر وہ یہ رقم بینکوں میں جمع کرواتے ہیں تو انہیں محکمہ انکم ٹیکس کو جواب دینا ہوگا کہ یہ رقم ان کے پاس کہاں سے آئی اور اس پر انھوں نے ٹیکس کیوں جمع نہیں کروایا تھا؟ بینکوں میں یہ سہولت دس نومبر سے تیس دسمبر تک دستیاب رہے گی۔
آپسی تعاون کی ضرورت:
 یہ اعلان بھی ہوا ہے کہ منگل کو اور ملک کے کچھ علاقوں میں بدھ کو بھی اے ٹی ایم مشینیں بند رہیں گی۔ منگل کو بینک بھی صارفین کے لئے بند رہیں گے تاکہ وہ خود کو نئے نظام کے لئے تیار کرسکیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے دو ہزار روپے کا نیا نوٹ بھی متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئندہ چند دنوں تک بینکوں سے رقم نکالنے پر بھی کچھ پابندیاں عائد رہیں گی، یعنی کتنی رقم نکالی جاسکتی ہے، تاہم وزیر اعظم کے مطابق یہ پابندیاں جلد ہی ہٹا لی جائیں گی۔ حکومت کے اس اعلان کے بعد سو روپے کا نوٹ ہی سب سے بڑا نوٹ رہ جائے گا۔ بدعنوانی ایک بڑا مسئلہ ہے اور بعض تخمینوں کے مطابق ملک کی متوازی معیشت کی مالیت بھی کھربووں ڈالر ہے. حکومت اس رقم کو نکلوانا چاہتی ہے۔ ستمبر میں ہی ایک ایمنسٹی اسکیم ختم ہوئی ہے جس میں لوگوں کو کالا دھن ڈکلئر کرنے کی سہولت دی گئی تھی۔ ایسے میں چھوٹا موٹا دھندہ کرنے والے، ٹھیلہ کھینچنے والے، غریب مزدور اور ایسے لوگ جن کے پاس پیسے بدلوانے کی نہ تو مہلت ہے اور نہ ہی بینک اکاونٹ اور اے ٹی ایم کارڈ جیسی سولتیں میسر نہیں ہیں یا جنھیں اس تعلق سے معلومات میسر نہیں ہیں، ایسے لوگوں کی معاونت کی جائے، تاکہ وہ پریشان نہ ہوں…..جن افراد کو مکمل معلومات نہیں ہے ان کی رہنمائی کریں…یا ایسے افراد جن کے بنیادی کام رک رہے ہیں ان کی مدد کریں…..ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ امت کو نہ جانے اپنے فرائض منصبی کا ہوش کب آئے گا کہ چوراہے پر حادثات اسی صورت میں ہوتے ہیں کہ جب ٹریفک پولیس کا سپاہی ڈیوٹی پر نہیں ہوتا!

Money is a matter of…..
By S A Sagar

“Money is a matter of functions four – A medium, a measure, a standard, a store” (self.Bitcoin)
That is the classic Economics axiom I had learned years ago to remember the functions of money in an Economy. Today, as a Tech and Bitcoin enthusiast, I always wonder how much this holds true in relation to Bitcoin:
 It is a medium of exchange (you can trade in BTC for buying or selling goods).
 It is a measure of value (you can value your laptop for say 1.5 BTC).
 A standard currency unit (you can measure BTC against USD, 1BTC ~ 300USD).
 A store of value (you can convert your existing assets to a BTC wallet that acts as a store of value). The only thing working against the acceptance of BTC is perhaps resistance from Central Banks and Govts. However, this creates an interesting scenario in Economics. I wonder what John Maynard Keynes or Adam Smith would have said about Bitcoin as a currency if they were there today. Adam Smith, for one, had extreme faith in perfect competetion and the “Invisible Hand of market”. He would certainly have appreciated the Bitcoin from a Classical Economics perspective.
India ranks poorly:
India ranked 133rd in the index covering 183 nations, below neighbouring countries like Nepal (77), Bhutan (69) and Sri Lanka (31) and trailing behind the South Asian average. According to reports, October 28, 20116, India has ranked very poorly at 133 in a new Global Youth Development Index compiled by the Commonwealth Secretariat on the countries’ prospects for young people in employment, education, health, civic and political spheres. India ranked 133rd in the index covering 183 nations, below neighbouring countries like Nepal (77), Bhutan (69) and Sri Lanka (31) and trailing behind the South Asian average. However, the report released last week found that it has registered an 11 per cent improvement in scores over the last five years, highlighting the need for greater investment to reap the so-called demographic dividend. “One in five young people in the world on Friday live in India, which makes it one of the most youthful countries on the planet,” said Abhik Sen, the lead author of the ‘2016 Global Youth Development Index’ report. “While India’s overall rank is relatively low, it has registered an impressive improvement of nearly 11 per cent in its youth development scores in the period between 2010 and 2015. The research for this report also shows that youth development levels in India lag particularly in the domains of health, education and employment. Improvements in these sectors will give India a much better chance of reaping a handsome demographic dividend,” he said. The improvement in India’s score between 2010 and 2015 is explained by a significant rise in the proportion of young people with an account at a formal financial institution (58 per cent increase), reduction in the adolescent fertility rate (29 per cent fall), adoption of a new youth policy, and improvement in the gross secondary enrollment rate (9 per cent rise). The report highlights that India accounts for nearly 20 per cent of the global youth population, with nearly 345 million young people between the ages of 15 and 30 living in the country. This makes India one of the countries currently experiencing the most significant “youth bulge” – with nearly 27 per cent of its total population made up of young people. The areas where improvements are called for include education, employment opportunity and health and wellbeing. In India, one in every three children (31 per cent) is not enrolled in secondary schools, against a global score for the same indicator of 19 per cent. In the field of employment opportunities, India trails behind the rest of the world significantly, ranking 152nd. The top 10 countries on the index are largely from Europe – Germany (1), Denmark (2), Switzerland (4), United Kingdom (5), Netherlands (6), Austria (7), Luxembourg (8), Portugal (9) – with Australia (3) and Japan (10) as the two exceptions.
Summary of the important announcement :
1. Black money issue, 500 rupees and 1000 rupees banned from Midnight.
2. ATM’s wouldn’t wouldn’t work on 9th and 10th November. Rather the withdrawal limit is Rs. 2000 only.
3. All Residents have option till 30th December 2016, to deposit their existing cash balance of 500 and 1000 rupees in their bank accounts.
4. ATM withdrawal is limited post 11th Nov to 10000 per day, but initial few days it would be 2000 Rs. Only.
5. Emergency periods like hospitals and chemist, train ticket booking and airline ticket booking, petrol pumps may accept the old notes to 11th November.
6. No changes in online, card, cheque or any other plastic money transactions.
7. 9th November, banks wouldn’t be available for public banking services.
8. New notes of 500 rupees and 2000 rupees would bring in circulation, mostly from 31st March 2017.
9. This one is not clear, but old notes can be exchanged with rbi till 31st March 2017. I guess post 30th December.
……
2000 दो हजार रुपए के नए नोट

केंद्र सरकार ने 9 नवंबर से 500 और 1000 के पुराने नोटों को बंद कर दिया है। इनकी जगह अब 500 और 2000 रुपए के नए नोट जारी किए जाएंगे। आरबीआई के मुताबिक, जल्द ही दो हजार रुपए के नए नोट जारी होंगे। एक प्रेस ब्रीफिंग कर आरबीआई ने 500 और 2000 के नए नोट के 17 फीचर्स बताए हैं। गहरे गुलाबी रंग का होगा नया नोट…
– दो हजार रुपए का नया करेंसी नोट मैजेंटा (गहरा गुलाबी) रंग का होगा। इसमें महात्मा गांधी की नई सीरीज वाली फोटो होगी। (500-1000 के नोट बंद, लेकिन घबराए नहीं, रखें इन बातों का ध्यान- देखें वीडियो)
– नए नोट में किसी तरह का कोई लेटर नहीं होगा। इसके अलावा, इसमें आरबीआई के नए गवर्नर उर्जित पटेल के सिग्नेचर होंगे।
– नोट के पीछे की तरफ इसका प्रिंटिंग ईयर ‘2016’ पब्लिश होगा। वहीं, पीछे की ओर मंगलयान की फोटो होगी। नोट के आगे और पीछे का डिजाइन जियोमेट्रिक पैटर्न कलर के हिसाब से होगा।
फीचर्स में जानें नए 2000 के नोट की खासियत
#1. नोट के आगे की तरफ सी थ्रू रजिस्टर में दो हजार रुपए लिखा होगा। आइडेंटिफिकेशन मार्क के ऊपर दिखाई देने वाली फूल-सी आकृति सी थ्रू रजिस्टर के नाम से जानी जाती है। दो हजार के नोट में फूल की जगह इसका मूल्य होगा, जो रोशनी में दिखेगा।​
#2. नोट पर दो हजार की लेटेंट इमेज भी होगी। गांधीजी की फोटो के साइड में लेटेंट इमेज होती है। इसमें जितने का नोट है, उसकी संख्या लिखी होती है।
#3. नोट में देवनागरी में भी नोट की वैल्यू यानी 2000 लिखा होगा।
#4. इसके बीच में महात्मा गांधी की पोर्ट्रेट होगी।
#5. लेफ्ट साइड में छोटे अक्षरों में आरबीआई और दो हजार लिखा होगा।
#6. सिक्युरिटी थ्रेड में ‘भारत’, आरबीआई और 2000 लिखा होगा। नोट को झुकाने पर इसका कलर ‘थ्रेड ग्रीन’ से ‘ब्लू’ में बदलेगा।
#7. नोट के दाएं तरफ गारंटी क्लॉज, प्रॉमिस क्लॉज और गवर्नर के सिग्नेचर होंगे। वहीं, इसी तरफ आरबीआई का चिह्न भी होगा।
#8. नीचे से दाएं तरफ रुपए के सिंबल के साथ 2000 लिखा होगा। ये कलर चेंज इंक में लिखा है, जो ग्रीन से ब्लू रंग में बदलेगा।
#9.नोट के ऊपर से लेफ्ट साइड और नीचे से राइट साइड नंबर पैनल होगा। पैनल में नंबर छोटे से बड़े होंगे। कमजोर आंखों वालों के लिए महात्मा गांधी की पोर्ट्रेट, अशोक स्तम्भ और ब्लीड लाइन और आइडेंटिटी मार्क उभरा हुआ होगा।​
#10.दाएं तरफ 2000 का इलेक्ट्रोटाइप वाटरमार्क होगा
#11.नोट के दाएं तरफ ही अशोक स्तम्भ होगा।
#12.राइट साइड में रेकट्राएंगल का साइन उभरा हुआ होगा, जिसमें 2000 लिखा होगा।
#13.लेफ्ट और राइट साइड सात एंगुलर ब्लीड लाइन उभरी हुई होगी।

‘Shameful’ Currency Game کرنسی کا ’شرمناک‘ کھیل

ایس اے ساگر
ملک بھر میں پانچ سو اور ہزار روپے کے کرنسی نوٹوں کو اچانک منسوخ کرنے سے ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ جمعرات کے روز لوگوں کا بینکوں میں زبردست ازدحام تاریخی نوعیت کا حامل رہا۔ ہزار اور پانچ سو کے کرنسی نوٹ کو ختم کر کے کرنسی کے بغیر لین دین کا انتظام کرنے والی کمپنی پے ٹی ایم، کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ پے ٹی ایم کے ذریعے لوگ بغیر کسی چارج کے موبائل سے ہی اپنے تمام بلوں کی ادائیگی ،شاپنگ اور تمام اخراجات کر سکتے ہیں۔ پے ٹی ایم نے اپنے اشتہارات میں مودی کی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے انہیں مبارکباد دی اور لکھا، ”اب اے ٹی ایم نہیں پے ٹی یم کرو۔‘ان اشتہارات پر دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہاہے کہ ” اس فیصلہ کا سب سے بڑا فائدہ پے ٹی ایم کو ہوگا فیصلے کے اگلے دن ہی وزیر اعظم اشتہار میں دکھائی دے رہے ہیں۔“ایک اور ٹوئیٹ میں انھوں نے لکھاہے کہ، ”شرم کی بات ہے، کیا لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے وزیر اعظم کسی نجی کمپنی کے اشتہار میں آئیں۔ کل اگر یہ کمپنیاں کچھ غلط کرتی ہیں تو ان کے خلاف کون کارروائی کرے گا۔“دلی کے وزیر صحت ستیندر جین نے پوچھا کہ پی ٹی ایم کو اپنے اشتہار میں وزیراعظم کی تصویر کے استعمال کی اجازت ایک ہی دن میں کیسے مل گئی؟ اپنی ٹوئٹ میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم ریلائنس جیسی سِم کے بعد اب پے ٹی ایم کے برانڈ امبیسڈر ہیں۔جبکہ پرشانت بھوشن نے لکھا کہ ہے کہ”حیرت کی بات ہے کہ پے ٹی ایم نے مودی کی تصویر کے ساتھ اشتہار جاری کیا ہے تو کیا اسے پہلے سے معلوم تھا۔“اس تنازع کے بعد پے ٹی ایم کے بانی وجے شیکھر نے کیجریوال کی ٹویٹس کا جواب دیا۔ انھوں نے لکھاہے کہ،”’اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہمارے ملک کو ہوگا ہم تو صرف ایک ذریعہ ہیں۔“دوسری جانب نوبت یہاں آن پہنچی ہے کہ کمی بیشی کے ساتھ نوٹوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ کمی بیشی کے ساتھ نوٹوں کی خرید و فروخت پر اہل علم کی رائے قابل غور ہے ۔دار الافتاءجامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا سے جب مسئلہ دریافت کیا گیا کہ آٹھ نو نومبر کی شب کو جب حکومتِ وقت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ پانچ سو اور ہزار کے نوٹ لیگل ٹینڈر Legal Tender نہیں ہوں گے، یعنی ان کا چلن مارکیٹ میں بند ہوجائے گا،لہٰذا جس کسی کے پاس پانچ سو اور ہزار کے نوٹ ہوں، وہ تیس دسمبر تک بینک یا ڈاک گھر میں جمع کرواسکتے ہیں، نیز جمع کروائی گئی رقم آپ ہی کی رہے گی، کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے،حکومتِ وقت کے اِس اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ سو اور ہزار کے نوٹوں کا چلن کسی مصلحت سے بند کردیا گیا ہے، لیکن اس میں موجود ثمنیت ومالیت یعنی قوتِ خرید ابھی تک وہی باقی ہے، جو اِس اعلان سے پہلے تھی، اسی لئے بینک یا ڈاک گھر میں ان کو جمع کروانے پر اتنی ہی مالیت کے نئے نوٹ دیئے جا رہے ہیں،… لیکن بعض لوگ نقصان کے خوف سے یا مجبوری میں پانچ سو یا ہزار کے نوٹ دے کر ، ساڑھے چار سو، یا ساڑھے نو سو لے رہے ہیں، اور بعض لوگ موقع کا فائدہ اٹھاکر غربیوں اور مجبوروں سے زیادہ رقم وصول کرکے ، انہیں اِس کا عوض کم دے رہے ہیں،،
سودی لین دین کے مساوی:
اہل علم کے نزدیک اس طرح کا لین دین شرعاً سود ہے، جو حرام ہے، کیوں کہ موجودہ دور میں زرِ قانونی یعنی نوٹوں نے ذریعہ تبادلہ ہونے میں مکمل طور پر زرِ خِلقی یعنی سونا چاندی کی جگہ لے لی ہے، اور باہمی تمام لین دین نوٹوں کے ذریعہ انجام پاتے ہیں ، اس لئے کرنسی نوٹ پر بھی زرِ خِلقی یعنی سونا چاندی کے احکام جاری ہوں گے ، اور جس طرح زرِ خِلقی یعنی سونے چاندی کا لین دین کمی بیشی کے ساتھ ناجائز وحرام ہے، اسی طرح ایک ہی ملک کی کرنسی کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ ناجائز وحرام ہوگا، لہٰذا پانچ سو کے نوٹ کے بدلے ساڑھے چار سو،یا ہزار کے نوٹ کے بدلے ساڑھے نوسو کا لین دین شرعاً ناجائز وحرام ہے، ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ اس طرح کے سودی معاملات میں ملوث نہ ہوں۔
کاغذی کرنسی کی حقیقت:
اس سلسلہ میں ذولفقار علی رقمطراز ہیں کہ چونکہ لوگوں کے ما بین لین دین کے تمام معاملات میں مرکز و محور زَر ہی ہوتاہے، اس لئے ہر معاشی نظام میں زر اور اس کے متعلقات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ زَر کی اس اہمیت کے پیش نظر علماے اسلام نے بھی اپنی تحریری کاوشوں میں اس موضوع کے تمام پہلووں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اسلام کے قرونِ اولیٰ میں قانونی زر سونے،چاندی کے سکوں (دنانیر و دراہم) کی شکل میں ہوتاتھا مگر دورِ حاضر میں تمام ممالک کے مالیاتی نظام کی اساس کاغذی کرنسی ہے، سونے چاندی کے سکے پوری دنیا میں کہیں استعمال نہیں ہو تے۔ اسلامی نقطہ نظر سے زر کی حقیقت اور مروّجہ کرنسی نوٹوں کی شرعی حیثیت کیاہے؟ ذیل میں اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں :
کسے کہتے ہیں زر؟
زر کوعربی میں نَقد کہتے ہیں اور مشہور لغت المعجم الوسیط میں نقد کا معنی یوں لکھا ہے:
خرید و فروخت میں نقد کا معنی ہوتا ہے: وہ شے جو ادھار نہ ہو ، نیز عمدہ قسم کا درہم جس میں کھوٹ نہ ہو، اس کو ’درہم نقد‘کہا جاتا ہے۔ ا س کی جمع نقود آتی ہے۔ اور نقد اس کرنسی کو کہتے ہیں جس کے ذریعے لین دین ہوتا ہو، خواہ سونے کی بنی ہو یا چاندی کی یاان دونوں کے علاوہ کسی دوسری چیز سے۔ عمدہ اور ردّی، صحیح اور فاسد کلام کے مابین امتیاز کرنے کے فن کو بھی’نقد‘ کہتے ہیں۔ جبکہ فقہی لٹریچر میں نقد کا لفظ تین معانی کے لئے آتا ہے:
1۔سونے چاندی کی دھاتیں خواہ وہ ڈلی کی شکل میں ہوں یا ڈھلے ہوئے سکوں کی صورت میں۔ چنانچہ فقہا کی عبارات میں سونے چاندی کے لئے النقدان کا لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے۔
2۔سونے چاندی کے سکوں کے لئے چاہے وہ عمدہ ہوں یا غیر عمدہ۔ سونے چاندی کے علاوہ کسی دوسری دھات سے بنے ہوئے سکوں کو فلوس کہتے ہیں۔اس معنی کے مطابق فلوس نقد میں شامل نہیں۔
3۔ہر وہ چیز جو بطورِ آلہ تبادلہ استعمال ہو، چاہے وہ سونے کی ہو یا چاندی، چمڑے،پیتل اورکاغذ وغیرہ کی شکل میں ، بشرطے کہ اس کوقبولیت ِعامہ حاصل ہو۔عصر حاضر میں نقد کا لفظ اس تیسرے معنی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے۔
٭ جبکہ اقتصادی ماہرین نقد(زَر) کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں :
زرکی تین خصوصیات ہیں جس مادہ میں بھی وہ پائی جائیں ، وہ زر شمار ہو گا :
ذریعہ مبادلہ ہوقیمتوں کا پیمانہ ہو،دولت محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہو
بلاشبہ اسلام کے ابتدائی ادوار میں مالیاتی لین دین سونے، چاندی کے سکوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا اورسونے ،چاندی کی زر ی صلاحیت بھی مسلمہ ہے، لیکن شریعت نے زر کے لئے سونے ،چاندی کے سکوں کی شرط نہیں لگائی بلکہ اس معاملے میں بڑی وسعت رکھی ہے۔مشہور مورخ احمد بن یحییٰ بلاذری کے بقول حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اونٹوں کی کھال سے درہم بنانے کا ارادہ کر لیا تھا مگر اس خدشے سے اِرادہ ترک کر دیا کہ اس طرح تو اونٹ ہی ختم ہو جائیں گے۔ جیسا کہ بلاذری نے ان کا یہ قول نقل کیاہے:
”میں نے اونٹوں کے چمڑوں سے درہم بنانے کا ارادہ کیا۔ ان سے کہا گیا: تب تو اونٹ ختم ہو جائیں گے تو اس پرا نہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔“
امام مالک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
”اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید وفروخت کورائج کر دیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائیں تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو ا دھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا۔“
یعنی اگر چمڑا بحیثیت زر رائج ہو جائے تو اس پر بھی وہی احکام جاری ہو ں گے جو درہم ودینار پر ہوتے ہیں۔ علامہ ابن نجیم حنفی خراسان کے امیر غطریف بن عطا کندی کی طرف منسوب غطارفة نامی دراہم جن میں ملاوٹ زیادہ اورچاندی کم ہوتی تھی، کی بحث میں رقم طراز ہیں :
”ولوالجی نے ذکر کیا ہے کہ غطارفہ جب دو سو ہوں تو ان میں زکوٰة واجب ہو گی،کیونکہ اگرچہ پہلے زمانے میں یہ لوگوں کے درہم نہیں تھے مگر آج کل یہی ہیں۔ ہر دور میں اس زمانے کا رواج معتبر ہوتا ہے۔“
اس سے یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ شرعی لحاظ سے زر کے انتخاب میں سونے چاندی کی پابندی نہیں ہے، قیمتوں کو چانچنے کے لئے کسی بھی چیز کو معیار بنایا جا سکتا ہے بشرط یہ کہ اسے معاشرہ میں قبولیت حاصل ہو۔
زر صرف حکومت جاری کر سکتی ہے
اگرچہ شریعت نے زر کے انتخاب میں کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی، لیکن زر جاری کرنے کا اختیار صرف حکومت کو دیا ہے کیونکہ مالیاتی لین دین کا مکمل نظام زر کی اساس پر ہی رواں دواں ہے اور اگرہرکس و ناکس کو حسب ِمنشا زر جاری کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس سے نہایت خطرناک اقتصادی اور معاشی حالات پیدا ہو جائیں گے۔چنانچہ کویت کے فقہی انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
”امام کے علاوہ کسی کوکرنسی بنانے کی اجازت نہیں ،کیونکہ یہ اس پر ظلم ہے۔ اور امام کو یہ حق پہنچتا ہے کہ جوشخص اس کا یہ حق سلب کرے، وہ اسے سزا دے خواہ اس کی بنائی ہوئی کرنسی خالص سونے چاندی کی ہی کیوں نہ ہو۔ امام احمد کا قول ہے کہ درہم صرف حاکم وقت کی اجازت سے ٹکسال میں ہی بنائے جا سکتے ہیں ،کیونکہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو وہ بڑے مصائب میں مبتلا ہو جائیں گے۔“
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”امام کے علاوہ کسی کو درہم اور دینار بنانے کی اجازت نہیں چاہے وہ خالص ہی ہوں ،کیونکہ یہ امام کا حق ہے اور اس دوسرے کو اس لئے بھی اجازت نہیں کہ اس میں جعل سازی اور بگاڑ کا اندیشہ ہے۔“
ثابت ہوا کہ اسلامی نقطہ نظر سے حکومت ِوقت کے علاوہ کسی کوکرنسی جاری کر نے کا اختیار نہیں، کیونکہ اس طرح جعلی کرنسی وجود میں آ نے کاخدشہ ہے جوموجب ِفساد ہے۔
زر کی قدر ہونی چاہئے مستحکم:
اسلامی نظامِ معیشت کا مکمل ڈھانچہ عدل پرقائم ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ان معاملات کو ممنوع قرار دیاہے جو عدل کے منافی ہیں ، چونکہ تمام مالی معاملات در حقیقت زرہی کے گرد گھومتے ہیں اورکسی مالی معاہدے کے وقوع اور وقت ادائیگی کے درمیان زر کی قوتِ خرید میں غیر معمولی کمی سے صاحب ِ حق کا متآثر ہونا یقینی ہے جو تقاضاے عدل کے خلاف ہے، اسی بناپر بعض مسلم مفکرین افراطِ زر کو بخس،تطفیف اورملاوٹ میں شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ اسلامی حکومت کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ مناسب حد تک کرنسی کی قدرکومستحکم رکھے۔ چنانچہ الموسوعة الفقہیة میں مرقوم ہے :
”مسلمانوں کے مفاداتِ عامہ جن کا تحفظ امام کی ذمہ داری ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ زر کی قیمتوں میں ثبات پیدا کرے تاکہ اس سے خوراک اور اشیا کی قیمتیں نہ بڑھیں اور غربت میں اضافہ نہ ہو۔ اور لوگ اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کئے گے زر سے فائدہ ا ±ٹھانے کے متعلق مطمئن ہوں تاکہ وہ زر رائیگاں نہ جائے اور خلل اور فساد واقع نہ ہو۔“
مشہور محدث امام ابن قیم فرماتے ہیں :
”زر ہی وہ معیار ہے جس کے ذریعے اموال کی قیمتوں کی پہچان ہوتی ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ یہ متعین اور کنٹرول میں ہو، اس کی مالیت میں ا تار چڑھاونہ ہو،کیونکہ اگر سامانِ تجارت کی طرح زَر میں بھی ا تار چڑھاو? ہو تو ہمارے پاس اشیا کی قیمت لگانے کے لئے کوئی ثمن (زَر) نہیں رہے گا بلکہ سب سامان ہی ہو گا، حالانکہ اشیاکی قیمت لگانے کے لئے لوگ ثمن کے محتاج ہیں۔اور یہ ایسے نرخ کے ذریعے ممکن ہے جس سے قیمت کی معرفت حاصل ہواور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب اشیا کی قیمت لگانے کے لئے ایک ز ر ہو اور وہ ایک ہی حالت پر رہے۔ اور اسکی قیمت کا معیار کوئی دوسری چیز نہ ہو،کیونکہ اس صورت میں وہ خود سامان Commodity بن جائے گا جس کی قیمت بڑھتی اور کم ہوتی ہے، نتیجتاًلوگوں کے معاملات خراب ہو جائیں گے، اختلاف پیدا ہوگا اور شدیدضرر لاحق ہو گا۔“
یعنی کرنسی ایسی ہونی چاہئے جس کی مالیت میں عام اشیا کی طرح غیر معمولی کمی واقع نہ ہو بلکہ معقول حد تک مستحکم قدرکی حامل ہو ورنہ لوگ ضرر کا شکار ہوں گے۔
زر کی قدر میں کیسے لایا جا ئے استحکام؟
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کاغذی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کا رجحان چلا آرہا ہے اور آج کل تو اس کی قدر بہت تیزی سے گر رہی ہے، اس کے برعکس سونے چاندی کی قوتِ خرید خاصی مستحکم ہے، بالخصوص سونے کی قوتِ خرید میں کوئی غیر معمولی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، اگر کسی بحران یا سونے کے مقابلہ میں اشیا وخدمات کی قلت کی بنا پر ایسا ہوا بھی تو کمی کا یہ سلسلہ مستقل جاری نہیں رہا اور اس کے اسباب دور ہونے کے بعد صورت اس کے برعکس ہو گئی۔ اگر عہد ِرسالت میں سونے کی قوتِ خرید کااس کی موجودہ قوتِ خرید سے تقابل کیا جائے توکوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا۔بطورِ نمونہ دو مثالیں ملاحظہ ہوں :
قتل کی دیت سو اونٹ ہے، اگر کسی کے پاس اونٹ نہ ہوں تو وہ ان کی قیمت ادا کر دے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں آٹھ سو دینار مقرر تھی :
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دیت کی قیمت آٹھ سو دینار تھی۔“
اس کا مطلب ہے کہ عہد ِرسالت میں ایک اونٹ کی قیمت آٹھ دینار تھی۔ جدید تحقیق کے مطابق شرعی دینار کا وزن ۲۵ئ۴گرام ہے۔ (دیکھئے الموسوعة الفقیة:21،29) اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک اونٹ کی قیمت 34گرام سونا بنی، آج بھی اتنے سونے کے عوض ایک اونٹ خریدا جاسکتا ہے۔ اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اونٹ گراں ہونے پر دیت کی قیمت آٹھ سو سے بڑھا کر ہزار دینار کر دی تھی، مگر آج کل ایک سو اونٹ خریدنے کے لئے آٹھ سو دینار یعنی 3400 گرام سونا کافی ہے۔
حضرت عروہ بارقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک دینار دیا تا کہ وہ اس سے ایک قربانی یا ایک بکری خریدے۔ ا نہوں نے دو بکریاں خرید لیں ،پھر ان میں سے ایک کو ایک دینار میں بیچ دیا اور ایک بکری اور ایک دینار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔“
یعنی عہد ِ رسالت میں 25ء4 گرام سونے کے عوض ایک بکری خریدی جا سکتی تھی، آج بھی سونے کی قوتِ خرید یہی ہے۔
ان دو مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عہد ِرسالت سے لے کر اب تک سونے کی قدر میں غیر معمولی کمی نہیں ہوئی، اگر کسی دور میں ایسا ہوا بھی تو بعد میں معاملہ الٹ ہو گیا۔البتہ اس عرصہ کے دوران سونے کی نسبت چاندی کی قوتِ خرید میں کافی کمی آئی ہے:
عہد ِنبوی میں دس درہم (تقریباً تیس گرام) چاندی سے ایک بکری خریدی جا سکتی تھی، اس کی دلیل وہ روایت ہے جس میں اونٹوں کی زکوٰة کے ضمن میں یہ بیان ہواہے :
”جس کے اونٹوں کی زکوٰة میں جذعہ (چار سالہ اونٹ) فرض ہو اور اس کے پاس جذعہ نہ ہو تو اس سے تین سالہ اونٹ قبول کر لیا جائے گااور وہ ساتھ دو بکریاں اگر آسانی سے میسر ہوں دے گا یا بیس درہم۔“ یعنی ایک بکری کے بدلے دس درہم
لیکن آج کل اتنی چاندی میں ایک بکری نہیں خریدی جاسکتی۔ تاہم اس کمی سے اس قسم کے تباہ کن معاشی حالات پیدا نہیں ہوتے رہے جن سے لوگ کاغذی کرنسی کی وجہ سے دوچار ہیں۔ اس لئے ماہرینِ معیشت کی رائے میں کاغذی کرنسی کی قدر میں ہوش ربا تغیر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مہنگائی کے طوفانوں کا ایک ہی حل ہے کہ مالیاتی لین دین کی بنیاد سونے ،چاندی کو بنایا جائے۔ چنانچہ آج کل پوری دنیا میں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دوبارہ سونے،چاندی کے سکوں کا نظام رائج کیاجائے۔
ابن مقریزی کے نزدیک بھی نرخوں میں بے تحاشہ اضافے کا حل یہی ہے کہ ازسرنو ’معیاری قاعدئہ زر‘  Gold Specie Standardکا اِجرا کیا جائے۔ چنانچہ کویت کے فقہی انسا ئیکلوپیڈیا میں ان کی رائے یوں درج ہے:
”نرخوں میں افراتفری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مہنگائی کی موجوں کا علاج صرف یہ ہے کہ سونے اور چاندی کے زر کے استعمال کی طرف لوٹا جا ئے۔“
ان کے دور میں افراطِ زر کا جو بحران پیدا ہوا تھا، ان کی نظر میں اس کا ایک سبب سونے کی جگہ معدنی سکوں سے لین دین تھاجس سے قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ چنانچہ وہ اس پر روشنی ڈالنے کے بعد فرماتے ہیں :
”اگر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو توفیق دے دیں جن کے سپرد اس نے اپنے بندوں کے امور کر رکھے ہیں یہاں تک کہ وہ لین دین کو سونے کی طرف لے جائیں اور سامان کی قیمتوں اور اجرتوں کے دینار اور درہم سے وابستہ کر دیں تو اس سے ا مت کا بھلا اور امور کی اِصلاح ہو گی۔“
جبکہ جدید ماہرینِ معیشت کے نزدیک حکومت کا حقیقی پیداوار کو نظر انداز کرکے نوٹ چھاپنا، اشیاءو خدمات کی طلب و رسد کے درمیان عدمِ توازن،اِسراف و تبذیر،تاجروں میں ناجائز منافع خوری کا رجحان اوراشیا کی پیداواری لاگت میں اضافہ وہ عوامل ہیں جو کرنسی کی قدر میں عدمِ استحکام پیدا کرتے ہیں۔ ان مسائل کو حل کر کے کرنسی کی قدر میں استحکام پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سونے ،چاندی کے سکے لازمی شرعی تقاضا نہیں ، علاوہ ازیں سونے، چاندی کے سکوں کی پابندی ریاست کے لئے غیر ضروری زحمت کا موجب بھی بن سکتی ہے، ممکن ہے ریاست کے پاس سکے بنانے کے لئے سونے چاندی کے وسیع ذخائر موجود نہ ہوں۔ البتہ جب افراط زر کامسئلہ سنگین صورت اختیار کرجائے تو اس وقت اس کا کوئی معقول حل ہونا چاہئے جیسا کہ علما کی فقہی آرا گزر چکی ہیں۔
زر کی قسمیں :
حقیقی اعتباری
حقیقی زر کااطلاق سونے،چاندی پر ہوتا ہے۔ سونے چاندی کے علاوہ زر کی باقی تمام اقسام خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہوں ’اعتباری زر‘ کہلاتی ہیں۔سونے چاندی کو حقیقی زر اس لئے کہاجاتا ہے کہ ان کی قوتِ خریدفطری ہے، اگر بحیثیت ِ زر ان کا رواج ختم بھی ہوجائے تب بھی باعتبارِ جنس ان کی ذاتی مالیت برقرار رہتی ہے۔جبکہ اگر اعتباری زر کی زری حیثیت ختم ہو جا ئے تو سونے چاندی کی طرح اس کی افادیت باقی نہیں رہتی۔سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی ممانعت کا فلسفہ بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ یہ زر ہیں۔
زر اور کرنسی میں فرق:
کرنسی کے مقابلے میں ’زر‘ اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے، کیونکہ اس میں کرنسی کے علاوہ دوسری اشیا بھی شامل ہیں جن کو معاشرے میں آلہ مبادلہ کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس کرنسی کا اطلاق صرف کاغذی زر پر ہوتا ہے۔اسی طرح کرنسی کو ادائیگیوں کے لئے قانونی طور پر قبول کرنا لازم ہوتا ہے جبکہ عام زر میں یہ پابندی نہیں ہوتی۔ تاہم اس اعتبار سے دونوں ایک ہیں کہ زر کی طرح کرنسی بھی آلہ مبادلہ کی حیثیت سے استعمال ہونے کے علاوہ اشیا کی قیمتوں کا تعین کرتی اور قابل ذخیرہ ہوتی ہے۔
کرنسی کی تاریخ:
سونے ،چاندی کے بحیثیت ِزر استعمال ہونے سے قبل دنیامیں ‘زرِبضاعتی’یا ‘اجناسی زر’ (النقود السلعیة) کا نظام رائج تھا۔ اس سسٹم کے تحت ہرخطے کے لوگوں نے اپنے علاقے میں مقبول اور قیمتی شمار ہونے وا لی اشیا کو زر کا درجہ دیا۔بعض علاقوں میں چاول بعض میں چمڑااوربعض میں چائے زر کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ چنانچہ معروف سعودی عالم جسٹس ڈاکٹر عبداللہ بن سلیمان منیع لکھتے ہیں :
”اس نظام میں یہ طے پایا کہ ایسی اشیا کوزرِ بضاعتی قرار دیا جائے جن میں حسابی وحدت، قیمتوں کی یکسانیت، بحیثیت ِمال جمع کئے جانے کی استعداد اور قوتِ خرید موجود ہو۔ یہ اشیا نوعیت کے اعتبار سے مختلف تھیں مثلاً ساحلی علاقہ جات میں موتیوں کو بطورِ ثمن (زر) استعمال کیا گیا۔ سرد علاقوں میں پشم کو ثمن ٹھرایا گیا۔جبکہ معتدل موسم کے حامل ممالک میں آباد لوگوں کی خوشحال زندگی اور آسودہ حالی کی بنا پر خوبصورت اشیا (مثلاً قیمتی پتھروں کے نگینے ،عمدہ لباس، ہاتھی کے دانت اورمچھلیوں وغیرہ) کو کرنسی قرار دیا گیا۔ جاپان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں چاول کو بطورِ کرنسی استعمال کیا گیا جبکہ وسط ِایشیا میں چائے، وسطی افریقہ میں نمک کے ڈلوں اور شمالی یورپ میں پوستین کو کرنسی قرار دیاگیا۔“
رومی بادشاہ جولیس سیزر (دورِ حکومت 60تا 44ق م) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی فوج کو تنخواہ نمک کی شکل میں ملتی تھی۔ نمک کو لاطینی میں’سیل‘ کہتے ہیں ، اسی سے لفظ Salary نکلا ہے جس کامعنی’تنخواہ‘ ہوتا ہے۔
چونکہ اشیا ضائع ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور ان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی بھی آسان نہیں ہوتی، اس لئے یہ نظام مستقل جاری نہ رہ سکا۔لوگوں نے اس کی جگہ سونے چاندی کا استعمال شروع کر دیا۔ابتدا میں سونے چاندی کے وزن کا ہی اعتبار ہوتا تھا۔سکوں کا رواج بعد میں شروع ہو ا۔سکے کب وجود میں آئے ؟اس کے متعلق وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ البتہ قرآنِ مجید سے یہ پتہ چلتاہے کہ حضرت یوسف?کے دور میں دراہم موجود تھے، کیونکہ ان کے بھائیوں نے ا ±نہیں دراہم کے عوض بیچاتھا :
”انہوں نے اس کو انتہائی کم قیمت، جو گنتی کے چند درہم تھے، کے عوض فروخت کر دیا۔“
واضح رہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا دور 1910 تا 1800ق م ہے۔
اسی طرح کہتے ہیں کہ سونے کا سکہ سب سے پہلے لیڈیا کے بادشاہ کروسس (دورِ حکومت: 560تا541 ق م) نے متعارف کروایا۔
عہد ِنبوی کی کرنسی:
بعثت ِ نبوی کے وقت عرب میں لین دین کا ذریعہ درہم و دینار تھے، لیکن گنتی کی بجائے وزن کا اعتبار کیا جاتا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ درہم و دینار عرب کے مقامی سکے نہ تھے بلکہ ہمسایہ اقوام سے یہاں آتے تھے۔
٭درہم ساسانی سکہ تھا جو عراق کے راستے عرب پہنچتا اور لوگ اس کی بنیاد پر باہم لین دین کرتے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کوبرقرار رکھا۔ یہ دراہم چونکہ مختلف وزن کے ہوتے تھے، اس لئے جب نصابِ زکو ة کے لئے درہم کا وزن مقررکرنے کی نوبت آئی تومسلمانوں نے ان میں سے متوسط کو معیار بنایا، چنانچہ اسی کو شرعی درہم سمجھا گیا۔ ایک قول کے مطابق یہ کام حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور میں جبکہ دوسرے قول کے مطابق بنو ا میہ کے دور میں ہوا۔جو صورت بھی ہو، تاہم آخر کارجس شرعی درہم پراجماع ہوا وہ وہی ہے جو عبد الملک بن مروان کے دور میں بنایاگیا۔لیکن فقہا اور مورخین نے ثابت کیا ہے کہ یہ درہم اپنی اصلی حالت پر نہیں رہا تھا بلکہ مختلف شہروں میں اس کے وزن اور معیار میں کافی تبدیلی آتی رہی ہے۔جدید تحقیق کی روشنی میں اس درہم کا وزن975ء 2 گرام چاندی ہے۔
٭ اسی طرح دینار رومیوں کی کرنسی تھی جو براستہ شام یہاں آتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باقی رکھا حتی کہ خلفاے راشدین اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی رومی دینار کو ہی کرنسی کی حیثیت حاصل رہی۔ جب مسند ِخلافت عبدالملک بن مروان کے پاس آئی تو انہوں نے زمانہ جاہلیت کے دینار کے مطابق ایک دینار جاری کیا جس کو ‘شرعی دینار’کہاجاتا ہے، کیونکہ اس کا وزن اس دینار کے برابر تھا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا تھا۔
٭ معمولی اشیا کے لین دین میں سونے چاندی کے علاوہ دوسری دھاتوں یعنی تانبے وغیرہ سے بنے سکے جنہیں ف ل وس کہاجاتا ہے، بھی استعمال ہوتے۔ جیسا کہ حدیث میں دیوالیہ شخص کے متعلق اَلم فلِس کالفظ آتا ہے۔ شارحِ بخاری حافظ ابن حجر اپنی مایہ ناز تالیف’فتح الباری‘ میں فرماتے ہیں :
”شرعی معنوں میں’مفلس‘ وہ شخص ہے جس کے قرضے اس کے پاس موجود مال سے زیادہ ہو جائیں۔ اسے مفلس اس لئے کہا جاتا ہے کہ پہلے درہم و دینار کا مالک تھا لیکن اب فلوس پر آگیا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہ شخص صرف معمولی مال (فلوس) کا مالک رہ گیا ہے۔ یا ایسے شخص کو مفلس اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ اس کو فلوس جیسی معمولی چیز میں ہی تصرف کا حق ہو تا ہے، کیونکہ وہ فلوس کے ذریعے معمولی اشیا کا لین دین ہی کرتے تھے۔“
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں بھی ف ±ل ±وس کا تذکرہ موجود ہے :
”ا ±نہوں نے اپنی لونڈی سے کہا کہ اس کے بدلے ’فلوس ‘ خرید لو۔“
سونے چاندی کے سکے وجود میں آنے کے بعدبھی بعض علاقوں میں مخصوص اشیا زر کی حیثیت سے استعمال میں رہیں۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ جب سوڈان گیا تو اس وقت وہاں نمک کے ساتھ ہی لین دین ہوتاتھا،چنانچہ وہ لکھتا ہے :
”سوڈان میں نمک بطورِ روپیہ کے چلتا ہے اور سونے چاندی کا کام دیتا ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر لیتے ہیں اور انکے ذریعے خریدو فروخت ہوتی۔پھرمختلف اسباب کی بنا پر آہستہ آہستہ درہم دینار کا رواج ختم ہوتا چلا گیااور ان کی جگہ کرنسی نوٹوں نے لے لی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیامیں کرنسی نوٹوں کا ہی دور دورہ ہے کیونکہ یہ آسان ترین ذریعہ مبادلہ ہے۔
 کب ایجاد ہوئے نوٹ؟
کہا جاتاہے کہ اہلِ چین نے 650ء سے 800ءکے درمیان کاغذ کے ڈرافٹ بنانے شروع کئے تھے، انہی ڈرافٹ نے آگے چل کرکرنسی نوٹوں کی اشاعت کا تصور دیا۔ اسی لئے کاغذکی طرح کرنسی نوٹ بھی اہل چین کی ایجاد شمار ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے کرنسی نوٹ910ء میں چین میں ایجاد ہوئے۔ ابن بطوطہ جو 1324ءسے1355ءکے درمیان چین کی سیاحت پر گیاتھا، چین کے نوٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتاہے :
”اہل چین درہم یادینار کے ذریعہ سے خرید وفروخت نہیں کرتے بلکہ سونے اور چاندی کو پگھلا کر ان کے ڈلے بنا کر رکھ چھوڑتے ہیں اور کاغذ کے ٹکڑوں کے ذریعہ سے خرید وفروخت کرتے ہیں۔ یہ کاغذ کاٹکڑاکفدست(ایک بالشت)کے برابر ہوتاہے اور بادشاہ کے مطبع میں اس پر مہر لگاتے ہیں۔ ایسے پچیس کاغذوں کو بالشت کہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ لفظ دینار کے معنی میں مستعمل ہوتاہے۔ جب یہ کاغذ کثرت استعمال سے یا کسی اور طرح پھٹ جاتاہے تو وہ دارالضرب میں لے جاتے ہیں اور اس کے عوض نیا لے آتے ہیں۔ یہ دارالضرب ایک بڑے درجہ کے امیر کی تحویل میں ہے۔ جب کوئی شخص بازار میں درہم یا دینار لے کر خرید وفروخت کرنے جاتاہے تو وہ درہم یا دینار نہیں چلتے، لیکن وہ درہم یا دینار کے عو ض یہ کاغذ لے سکتاہے اور ان کے عوض جو چیز چاہے خرید سکتا ہے۔“
مشہورمورخ ابن مقریزی جب بغداد گئے تھے توانہوں نے بھی وہاں چین کے نوٹوں کا مشاہدہ کیا تھا۔چین کے بعد جاپان دوسرا ملک ہے جہاں چودھویں صدی عیسوی میں کرنسی نوٹ جاری ہوئے۔یوروپ میں پہلا باقاعدہ نوٹ 1661ءو’اسٹاک ہام بینک‘سویڈن نے جاری کیا۔ انگلینڈ نے 1695میں کرنسی نوٹ جاری کئے۔ہندوستان میں پہلا نوٹ 5 جنوری1825 کو ’بنک آف کلکتہ‘ نے جاری کیاجس کی مالیت دس روپے تھی۔تقسیم وطن کے بعد پاکستان میں کرنسی نوٹ یکم اکتوبر 1948کو جاری کئے گئے۔ابتدامیں تونوٹ کی پشت پر سو فیصد سونا ہوتا تھا،لیکن بعد میں مختلف معاشی وجوہ کے باعث سونے کی مقدار سے زائد نوٹ جاری کئے جانے لگے اورمختلف اَدوار میں یہ تناسب بتدریج کم ہوتا رہا یہاں تک کہ1971سے نوٹ کا سونے سے تعلق بالکل ختم ہو چکا ہے۔
کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت:
اب نوٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے، اس بارے میں علما کی مختلف آرا ہیں :
پہلی رائے یہ ہے کہ نوٹ اصل میں اس بات کا دستاویزی ثبوت ہیں کہ حاملِ نوٹ نے اس نوٹ کے جاری کنندہ سے اتنا سونا یا چاندی وصول پانا ہے۔ اس کے حق میں سب سے مضبوط دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ نوٹ پر یہ ا لفاظ تحریر ہوتے ہیں:
”حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا“
اس رائے کے مطابق نوٹوں کے ساتھ سونا چاندی خریدنا جائز نہیں ، کیونکہ نوٹ کے ساتھ خریداری کا مطلب حقیقت میں اس سونے یا چاندی کے ساتھ خریداری ہے جو اس نوٹ کی پشت پرہے اور شرعی اعتبار سے سونے کی سونے یا چاندی کی سونے کے ساتھ بیع میں دونوں طرف سے موقع پر قبضہ شرط ہے جو یہاں مفقود ہے، کیونکہ خریدار نے سونے کے بدلے سونا نہیں دیا بلکہ اس کی رسید دی ہے۔چنانچہ تفسیر’اضواء البیان ‘کے مصنف علامہ محمد امین شنقیطی اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں :
”یہ نوٹ چاندی کی رسید ہیں اور بیچی گئی چیز وہ چاندی ہے جس کی یہ رسید ہیں۔جو ان پر لکھی عبارت پڑھے گا وہ اس رائے کا درست ہونا سمجھ جائے گا۔اس رائے کے مطابق نوٹوں کی سونے چاندی کے بدلے بیع چاہے نقد ہوجائز نہیں ، کیونکہ جس چاندی کی رسید دی جاتی ہے وہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے دونوں طرف سے موقع پر قبضہ کی شرط نہیں پائی جاتی۔“
جس طرح اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹوں کے بدلے سونا چاندی خریدنا جائز نہیں ، اسی طرح نوٹوں کے ساتھ مشارکہ یا بیع سلم درست نہیں ، کیونکہ اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹ دَین Debt کی رسید ہے جبکہ شرعی اعتبار سے شراکت اور سلم میں سرمایہ نقد ہونا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں یہ رائے اختیار کرکے ایک ملک کی کرنسی کا دوسرے ملک کی کرنسی سے تبادلہ یامنی چینجر کا کاروبار بھی نہیں ہوسکتا،کیونکہ یہ سونے کے بدلے سونے کی ادھار اور کمی بیشی کاساتھ بیع ہو گی جو شرعاًدرست نہیں۔مگر یہ موقف درست نہیں کیونکہ اب نوٹ قرض کی رسید نہیں رہا جیسا کہ قبل ازیں بیان ہو ا ہے بلکہ اب یہ خود قانونی زر بن چکا ہے اور ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں کہ حکومت کوئی بھی چیزبطورِ زر اختیار کر سکتی ہے۔اب نوٹ پر لکھی اس عبارت ”حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا۔” کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکومت اس کی ظاہری قیمت کی ذمہ دار ہے۔ جسٹس علامہ عمر بن عبدالعزیز المترک فرماتے ہیں :
”نوٹ رسید نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ گم یا تلف ہو جائے تو اس کا مالک جاری کنندہ سے مطالبہ نہیں کر سکتا خواہ اس کے پاس ہزار گواہ ہوں اور اگر یہ حقیقی رسید ہوتا تو اس کو ضروریہ اختیار ہوتا، کیونکہ قرض مقروض کے ذمے ہوتا ہے، رسید تلف ہونے سے ضائع نہیں ہوتا۔“
بعض نامور علما کے نزدیک نوٹ بذاتِ خود سامان(جنس) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مشہور مالکی فقیہ علیش مصری کی بھی یہی رائے ہے۔علامہ محمد امین شنقیطی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
”جن حضرات نے ان کے سامانِ تجارت ہونے کا فتویٰ دیا ہے، ان میں ‘نوازل ‘اور ‘شرح مختصر خلیل ‘ کے مصنف مشہور عالم علیش مصری بھی شامل ہیں۔ بعد کے اکثرمالکی علمانے بھی ان کے فتویٰ کی پیروی کی ہے۔“
اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نوٹ قیمت بننے کی صلاحیت سے عاری ہے، کیونکہ یہ نہ سوناہے اور نہ چاندی، یہ تو سامان کی مانندہیں۔ اس نظریہ کے مطابق ایک نوٹ کا دو نوٹوں کے ساتھ تبادلہ درست ہے۔ اسی طرح اس نظریہ کے مطابق نوٹوں میں زکوٰة اسی صورت واجب ہو گی جب ان کو فروخت کر کے نفع کمانا مقصود ہو۔یعنی بذات خود ثمن کی بجائے نوٹ سامانِ تجارت قرار پاسکتاہے۔مزید برآں ا س قول کی بنیاد پر نوٹ سے مضاربہ اور بیع سلم بھی جائز نہیں بنتی، کیونکہ یہ قیمت نہیں ، سامان ہے۔چونکہ یہ نظریہ خطرناک نتائج کا حامل ہے، اس لئے عصر حاضر کے اہل علم اس کی تائید نہیں کرتے۔
تیسری رائے یہ ہے کہ نوٹ سونے، چاندی کا متبادل ہیں۔ اگراس کے پیچھے سونا ہو تو سونے اور اگر چاندی ہو توچاندی کامتبادل ہو گا۔ ڈاکٹر عبداللہ بن سلیمان منیع لکھتے ہیں :
” اس نظریہ کے قائلین کی دلیل یہ ہے کہ قیمت کے اعتبار سے یہ نوٹ اپنی اس اصل کی طرح ہے جس کے یہ بدل ہیں یعنی سونا اور چاندی، کیونکہ ان کا اصل چاندی یا سونا ان کی پشت پر ان کے زرِ ضمانت کے طور پر موجود ہے اور مقاصد ِشرعیہ کاتعلق تو اصل اور حقائق سے ہے نہ کہ الفاظ اور ان کی بناوٹ سے۔“
اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹوں کے باہمی لین دین میں سود کے احکام بھی جاری ہوں گے اور جب یہ دو سو درہم چاندی یا بیس دینار سونے کی قیمت کے مساوی ہوں تو سال کے بعد ان پرزکوٰة بھی واجب ہو گی۔اسی طرح ان کے ذریعے بیع سلم بھی درست ہو گی۔
لیکن یہ رائے بھی کمزور ہے، کیونکہ اس کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ نوٹ کی پشت پر سونا یاچاندی ہے حالانکہ امر واقع میں ایسا نہیں۔ چنانچہ جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان منیع اس کی خود تردید کرتے ہیں :
”یہ نظریہ بھی حقیقت ِواقعہ کے مطابق نہ ہونے کی بنا پر قابل التفات نہیں ،کیونکہ اس کا دارومدار کرنسی نوٹوں کی اصل پر ہے اور اصل جیسا کہ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ تو کرنسی نوٹوں کی پشت پر ہے نہیں۔بلکہ اکثر ممالک کے نوٹ محض ساکھ کی بنا پر ،زبانی ضمانتوں اور حکومتوں کے جاری کردہ ہونے کی بنا پر رائج اور قابل قبول ہیں ، ورنہ ان کے پیچھے نہ تو سونا ہے نہ چاندی۔ بلکہ کچھ ایسے ہیں جنہیں پراپرٹی کی ضمانت حاصل ہے اور کچھ کو محض اقتدار کی ضمانت۔ لہٰذا یہ نظریہ خلافِ واقعہ ہونے کی بنا پر بہت کمزور ہے۔
نوٹ کی شرعی حیثیت کے متعلق چوتھی رائے یہ ہے کہ نوٹ دھاتی سکوں (فلوس ) کی طرح اصطلاحی زر ہیں :
”مال کی چوتھی قسم وہ ہے جو اصل میں تومال ہے، لیکن اصطلاحی لحاظ سے زر ہے جیسے دھاتی سکے ہیں …جب یہ معلوم ہوگیا تو، سنو نوٹ کا تعلق چوتھی قسم سے ہے جو حقیقت میں سامان ہے کیونکہ یہ کاغذ ہے اور اصطلاحی طور پر زر ہے، کیونکہ اس سے زر جیسا معاملہ کیاجاتاہے۔“
لیکن یہ رائے بھی قوی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اہل علم کے ہاں دھاتی سکوں میں زر کی بجائے سامان کا پہلو غالب ہے، یہی وجہ ہے کہ جمہور فقہا نہ توکمی بیشی کے ساتھ ان کا تبادلہ مکروہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کو شراکت و مضاربت میں رآس المال بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔نیزان میں زکوٰةبھی اسی صورت واجب قرار دیتے ہیں جب ان کو فروخت کر کے نفع کمانا مقصود ہو۔ جیساکہ الموسوعة الفقہیة میں ہے :
”امام ابوحنیفہ ،امام ابو یوسف اورمالکی فقہا کاقول ،حنابلہ کا صحیح مسلک اور شافعیوں کاصحیح ترین نقطہ نظر یہی ہے کہ دھاتی سکوں میں ربا نہیں ہے بلکہ یہ سامان کی طرح ہیں۔“
”امام ابو حنیفہ ،ابویوسف ، مالکی (مشہور مسلک کے مطابق) شافعی اور حنبلی فقہا کا خیال ہے کہ دھاتی سکوں کے ذریعے مضاربہ درست نہیں کیونکہ مضاربہ عقد ِ غرر ہے جو ضرورت کی بنا پر جائز قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ انہی چیزوں کے ساتھ خاص رہے گاجو اکثر مروّج ہوں اور ان کے ساتھ تجارت آسان ہو اوروہ نقدیاں ہیں۔“ یعنی دھاتی سکے زر نہیں۔
”شافعی اور حنبلی فقہا کی رائے میں دھاتی سکے سامان کی طرح ہیں ، چنانچہ ان میں زکوٰة اسی وقت واجب ہو گی جب یہ تجارت کی غرض سے ہوں۔“
ان فقہا کے نقطہ نظر کی تائیداس سے بھی ہوتی ہے کہ کسی حدیث میں دھاتی سکوں کی زکوٰةکا تذ کرہ نہیں ملتا حالانکہ عہد ِنبوی میں یہ موجود تھے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اگر یہ زر ہوتے تو سونے چاندی کی طرح ان کی زکوة کا بھی ذکر ہوتا۔ حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ کی اس روایت کہ انہوں نے اپنی لونڈی سے کہا:
”اس کے فلوس خرید لو۔“
سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں دھاتی سکے سامان شمار ہوتے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہائے احناف کے نزدیک دھاتی سکے زر ہیں ، اسی لئے وہ ان میں زکوٰة بھی واجب قرار دیتے ہیں ، لیکن امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہم اللہ کے نزدیک متعاقدین دھاتی سکوں کو متعین کر کے ان کی زر ی حیثیت ختم کر سکتے ہیں ، اس صورت میں یہ سامان کے حکم میں ہوتے ہیں اوران حضرات کے نزدیک کمی بیشی کے ساتھ ان کا تبادلہ بھی صحیح ہو تا ہے۔ان شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ فقہا کی نظر میں دھاتی سکے( فلوس) یا تو زر ہی نہیں یا پھر ناقص زر ہیں ، اسی لئے وہ ان سے زرکاوصف ختم کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔جو صورت بھی ہو بہر حال کرنسی نوٹوں کو ان پر قیاس نہیں کیا سکتا،کیونکہ نہ تودھاتی سکوں کی طرح ان میں سامان کا پہلوغالب ہے۔ یہ تو محض کاغذ کے ٹکڑے ہیں ، ان کی جو حیثیت بھی ہے، وہ ان کی پشت پر حکومتی ضمانت کی وجہ سے ہی ہے اور نہ ہی متعاقدین کو ان کی زری حیثیت کالعدم کرنے کااختیار ہے، کیونکہ یہ قانونی زر ہیں۔اس سلسلہ میں پانچویں اورآخری رائے یہ ہے کہ نوٹ سونے چاندی کی طرح مستقل زر ہے، کیونکہ نوٹوں میں زر کی تما م صفات پائی جاتی ہیں۔ قیمتوں کا پیمانہ اور قابل ذخیرہ بھی ہیں اور لوگ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے یہی زر کی حقیقت ہے جیسا کہ ہم شروع میں امام مالک کا یہ قول نقل کر آئے ہیں :
”اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید وفروخت کورائج کر دیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائے تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو ا دھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا۔“
اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی چیز کو خواہ وہ چمڑا ہی کیوں نہ ہو بطور زر اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اس کی تائید امام ابن تیمیہ کے ‘مجموع الفتاوی’ میں ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:
”اس کا خلاصہ یہ ہے کہ درہم و دینار کی کوئی ذاتی اور شرعی تعریف نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق عرف اور اصطلاح سے ہے، کیونکہ درہم و دیناربذاتِ خود مقصود نہیں ہوتے بلکہ یہ باہمی لین دین کا ذریعہ ہیں۔ اسی لئے یہ قیمت شمار ہوتے ہیں چونکہ باقی اَموال سے فائدہ ا ٹھانا مقصود ہوتا ہے، اس لئے ان کی یہ حیثیت نہیں ہے۔ وہ ذریعہ جس کے مادہ اور صورت سے کوئی غرض وابستہ نہ ہو وہ جیسا بھی اس سے مقصود حاصل ہوجاتاہے۔“
چونکہ دلائل کے لحاظ سے یہ نقطہ نظر قوی ہے اور اس پر کئے گئے اعتراضات بھی زیادہ وزنی نہیں ، اس لئے دور حاضر کے علمائے کرام کی اکثریت،بیشترمفتیانِ کرام کے فتاوی اور اہم فقہی اداروں کی قرار دادیں اسی کے حق میں ہیں۔ جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان منیع کی بھی یہی رائے ہے۔
سعودی کبار علماءکی مجلس نے بھی اس کو ترجیح دی ہے۔
جسٹس علامہ عمر بن عبدالعزیز المترک بھی اسی قول کے حق میں ہیں۔چنانچہ وہ مذکورہ بالا آرا اور ان کے دلائل کا تجزیہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
”کاغذی زر کے متعلق علما کی آرا اور ہر ایک کے نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ لینے سے ہمیں ان کا قول راجح معلوم ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ نوٹ مستقل کرنسی ہے اور سونے چاندی کی طرح ان میں بھی سود کے اَحکام جاری ہوتے ہیں۔ ربا، سود اور تلف کی صورت میں ضمان کے مسائل میں ان پر مکمل طور پر سونے چاندی کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔“
دیگر اقوال کی خرابیاں واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
”دوسرے اقوال یا تو معاملات میں لوگوں کومشکل میں ڈال دیں گے یا لین دین کا دروازہ ہی بند کر دیں گے حالانکہ اس کے بغیر چارہ نہیں یا پھر سود کا دروازہ چوپٹ کھول دیں گے اور نقدین کی زکوٰة ضائع کرنے کے حیلوں کا دروازہ کھولیں گے۔“

امت کے سمجھنے کی بات:
حکومت کو برا بھلا کہنے والے سمجھ لیں کہ اسلامی سیاست کی دو اہم بنیادیں ہیں۔مفتی شکیل منصور القاسمی رقمطراز ہیں کہ نسل، وطن، رنگ اور قومیت کی بنیاد پر مسلمانوں کی تفریق وتقسیم کی ذہنیت ہی اسلام اور مسلمانوں کے لئے سب سے بڑاموذی ہے۔۔۔۔پیغمبر اسلام نے جاہلیت کے اس عفریت کی شہ رگ پہ کاری ضرب لگائی تھی،اور اس کی بنیاد پر تیشہ چلایا تھا۔مدینہ پہونچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست کی تشکیل فرمائی تو سب سے پہلے اس کی سیاست کی پہلی بنیاد یہ رکھی کہ مہاجرین وانصار کے درمیان رشتہ مواخات قائم فرمایا۔یہ اسلامی سیاست کی پہلی اینٹ تھی۔اس سے صدیوں پرانے اختلافات ونزاعات سر ہوئے۔الفت ومحبت کی لاثانی فضا قائم ہوئی۔اسلامی ریاست کی دوسری بنیاد یہ رکھی گئی کہ مدینہ کے قرب وجوار کے یہودیوں سے معاہدہ ہوا ۔جس کا سب سے اہم منشور یہ تھا کہ باہمی اختلاف کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ سب کے لئے واجب التعمیل ہوگا نیز یہود مدینہ مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کو ظاہرا یا باطنا کوئی امداد فراہم نہیں کریں گے۔پھر مسلمانوں کے مابین آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دستور نافذ فرمادیا کہ عدل وانصاف اور نیکی وتقوی کسی کی مدد کرنے یا کسی سے مدد حاصل کرنے کا معیار ہونا چاہئے۔جو شخص عدل وانصاف اور نیکی پر ہو اس کی مدد کرو۔خواہ رنگ ونسل، خاندان وزبان ووطن کے لحاظ سے تم سے مختلف ہی کیوں نہ ہو ! اور ظالم وگنہگار کی مدد نہ کرو اگرچہ وہ تمہارا باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو ۔اسلامی سیاست کی یہ دو ایسی فولادی وآہنی بنیادیں تھیں جن کے ہوتے ہوئے قیصر وکسری کی عالمی طاقتیں بھی اس چھوٹی سی اسلامی ریاست کا بال بیکا نہ کرسکیں۔شروع ہی سے اسلام دشمن اس مشترک اسلامی برادری کو منتشر کرنے کے لئے سرگرداں تھے۔برادری اور قومیت ووطنیت کے حربہ کے ذریعہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔وحدت اسلامی کو ٹکڑوں میں بانٹ دینے کے لئے موجودہ دور کے صیہونیوں نے وطنیت وقومیت کا پھر منظم شیطانی جال بچھایا ہے۔اس جال میں پھنس کر عام دنیا کے مسلمان باہمی جنگ وجدال کے شکار ہیں۔عرب میں مصری شامی حجازی یمنی عراقی کو ایک دوسرے سے بر سر پیکار کردیا گیا۔عجمیوں میں ہندستانی پاکستانی بلوچ سندھی پنجابی کشمیری باہم آویزش کے شکار ہیں۔ اور دشمنان اسلام ہماری اس آویزش کا کھیل کھیل رہے ہیں۔اسی لئے وہ ہر میدان میں ہم پر غالب ہیں اور ہم غلامانہ ذہنیت کے ساتھ کبھی بش کبھی کلنٹن کبھی اوبامہ اوراب ٹرمپ کی طرف نظریں اٹھاکے نجات دہندہ کے بطور دیکھ رہے ہیں۔
”ان ھذ امة واحدة “
پر ایمان رکھنے والے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ کشمیر کا ظلم وستم انڈیا پاکستان کا معاملہ ،فلسطین وشام میں قتل خونریزی کو مشرق وسطی کا معاملہ قرار دے کر تماشائی بنے ہوئے ہیں۔نبی آخر الزمان نے جس عصبیت جاہلہ سے پوری شدت کے ساتھ جنگ کی تھی۔ آج یہ عفریت انہی مسلمانوں کے گھروں میں پروان چڑھ رہا ہے اور یہی اس کے رکھوالی بنے بیٹھے ہیں۔زیادہ بکھیڑہ میں جائے بغیر صرف اسلامی سیاست کی مذکورہ دوبنیادوں کو ہر اسلامی ملک میں ترجیحی بنیادوں پر نافذ کردیا جائے تو پہر عالمی منظر قابل دید ہوگا۔اس موقع سے مسدس حالی کے دو بند پیش کرنے کو جی چاہتا ہے
خصومت سے ہیں اپنی گو خواریاں سب
نزاعوں سے باہم کی ،ہیں ناتواں سب
خود آپس کی چوٹوں سے ہیں خستہ جاں سب
یہ ہیں متفق اس پر ،پیر وجواں سب
کہ نا اتفاقی نے کھویا ہے ہم کو
اسی جزر ومد نے ڈبویا ہے ہم کو
یہ مانا کہ کم ہم میں ہیں ایسے دانا
جنہوں نے حقیقت کو ہے اپنی چھانا
تنزل کو ہے ٹھیک ٹھیک اپنے جانا
کہ ہم ہیں کہاں اور کہاں ہے زمانا
یہ اتنا زبانوں پہ ہے سب کے جاری
کہ حالت بری آج کل ہے ہماری
ضرورت ہے کہ خارجی بھروسوں اور اعانتوں پہ توکل کرنے کی بجائے مسلمانوں بالخصوص مسلم حکمرانوں کی اندر کی صلاحیت اور بنیادوں کو ابھارا جائے اس سے جو قوت پیدا ہوگی وہ ملت کی اپنی حقیقی قوت ہوگی۔
والسلام علیکم

NOTE BADALNE KI SURATEN
AAJ KA SAWAL NO.837
1000,(ek hazaar) ya 500 (panchso) ki note dekar kam paise masalan 900 (nawso) ya 450 (charso pachaas) rupiye lena kaisa hai?
Agar na jaIz ho to abhi Ke haalaat me jaiz shakal kiya hai?
Jawab:
Hazaar ya panchso rupiye dekar kam paise ka len den rupiye ke muqabale me rupiye hone ki wajah se soodee (interest) muamalah hai.
Lene wala aur dene wala dono sakht gunehgar aur la’anat ke mustahiq hai.
aisa hargiz nahi karna chahiye.
Jaiz shakal yeh hai ke hazaar ke muqabale me nawso diye jaye aur saath me misal ke taur par ek das rupiyewala pen wagairah koi cheez di jaye to 900 rs.ke muqabale me 900 rs.aur so ruiye kam de raha hai is ke muqabalah aur badle me das rupiyewala pen ho jaye.
dusri misal ek lakh ke muqabalah me 85000 hazar aur 5000 rs. ka mobile 15000 me bech diya jaye to 85,000 ke muqabalah me 85,000 aur 15000 ke muqabalah aur aewaz me panch hazar wala mobile de diya jaye taake rupiye badle me barabar sarabar rupiya aur kami ke aewaz me mobile yani koi cheez ho jaye.
FIQHI MAQALAT
HIDAYAH RABIA BABUR RIBA SE MAKHOOZ
Mufti Imran Ismail Memon.
Ustaze Darul Uloom Rampura, Surat, Gujarat, India.
http://www.aajkasawal.page.tl
http://www.deeneemalumat.net
Update Islamic Group App
Naye category add hue h alhamdulillah.._
https://play.google.com/store/apps/details…


‘Shameful’ Currency Game
By: S A Sagar
Mobile payment platform Paytm Wednesday said it has recorded a 435% increase in its overall traffic within hours of Prime Minister Narendra Modi’s ban on Rs 500 and Rs 1000 notes as a step to clean up black money and move towards a cashless economy. It is “utterly shameful” that Prime Minister Narendra Modi’s photo was being used by private online payment firm Paytm, According to reports, November 10, 2016, Delhi Chief Minister Arvind Kejriwal said on Thursday. “Utterly shameful. Do people want their PM to model for private companies? Tomorrow, if these companies do wrongdoings, who will act against them?” the Aam Aadmi Party leader asked in a tweet. “Paytm biggest beneficiary of PM’s (Modi’s) announcement (demonetization of big currency). Next day PM appears in its ads. What’s the deal, Mr PM?” Mr Kejriwal asked. The AAP on Wednesday termed the government’s demonetization of Rs. 500 and Rs. 1,000 notes as a “Tughlaki farman” (Tughlak’s diktat) and said the move was made to favour big businessmen who hold black money. “This is the biggest and most ambitious step ever to crack down on black money and fake currency. We stand by the government in its efforts towards taking black money out of the equation and offering a major boost to the Indian economy,” Madhur Deora, CFO, Paytm said in a statement. “Since Paytm is fast becoming synonymous to all kinds of payments, we are happy to announce we have registered a strong surge in volume on our platform,” he added. The company said it has registered a 200% hike in number of app downloads and 250% surge in number of overall transactions and transaction value. The number of saved cards also grew by 30%, pointing at a strong set of repeat customers the platform has now acquired.

111116 currency ka sharamnaak khail by s a sagar

Delhi and Diwali ہواتھمی، سانس رکی

ایس اے ساگر

 بر صغیر ہند، پاک کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک بھی افق پر دبیز چادر تان کے گھٹن کے عذاب میں مبتلا کئے گئے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ ہندوستان کے مرکزی دارالحکومت دلی کی فضا کی تان دیوالی کی آتشبازی پر توڑی جارہی ہے کہ جس کی بدولت کاربن ڈائی آکسائڈ حد سے تجاوز کرگئی ۔ دہلی میں آلودگی کی سطح میں اس قدر اضافہ ہوگیا ہے کہ ریاستی حکومت نے ایم سی ڈی اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اسکول کے طلبہ و طالبات اور ان کے والدین نے ماسک لگا کر عوام میں آلودگی کے متعلق بیداری پیدا کرنے اور آلودگی کی سطح میں اضافے کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔فضا میں کثافت اور سموگ کے سبب ہفتہ کو دہلی میونسپل کارپوریشن کے زیر انتظام چلنے والے 1700 سے زیادہ اسکول بند رہے۔سموگ کے اسباب میں آٹوموبائل، کاربن مینجمنٹ، کھیتوں کے کوڑے کرکٹ کو نذر آتش کرنے سے مسلسل نکلنے والے دھوئیں، جھاڑو لگانے کے بعد کوڑے میں آگ لگا دینا، جنریٹر کو رات دن چلایا جانا اور پرانی ڈیزل کاریں جنھیں سپریم کورٹ نے بند کرنے کا حکم دیا تھا ،سب شامل ہیں۔2014 میں عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ میں دہلی کو دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر قرار دیا گیا تھا۔لیکن اس کا کیا کیجئے کہ مذکورہ رپورٹ کو بعد میں انڈین حکومت نے رد کر دیا تھا۔تاہم دہلی میں آلودگی کی خوفناک سطح پر مرکزی وزیر ماحولیات انیل دوے معترف ہیں کہ دہلی جیسے بڑے شہر میں ماحولیات کے حالات سال بھر سے خراب ہیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر گذشتہ 10-12 دنوں میں حالات مزید بدتر ہو گئے ہیں۔نوبت یہاں آن پہنچی ہے کہ سموگ کی وجہ سے دہلی میں ہونے والے گھریلو کرکٹ ٹورنامنٹ رانجی ٹرافی کے دو میچوں کو منسوخ کر دیا گیاہے۔
آنکھوں میں جلن:
 بی بی سی اردو کے سہیل حلیم رقمطراز ہیں کہ میری آنکھوں میں جلن ہے لیکن سینے میں طوفان نہیں۔ کئی دن سے سانس لینے میں بھی دقت ہو رہی ہے، سر میں بھاری پن کا احساس ہے، ایک خوف ہے جو دل میں گھر کر گیا ہے کیونکہ ایک دشمن ہے جو ہوا میں تیر رہا ہے، جو اب تک پوشیدہ تھا لیکن دیوالی/ دسہرے کے دن بدی پر نیکی کی فتح کیا ہوئی، اب وہ سینا تانے دندناتا پھر رہا ہے۔دہلی اور اس کے گرد و نواح میں ہوا کا رنگ بدلا ہوا ہے، پہلے ہوا کا کوئی رنگ نہیں ہوتا تھا، آپ اسے صرف محسوس کر سکتے تھے، آج کل مٹمیلا نارمل ہے۔ کئی دن سے آسمان نظر نہیں آیا ہے، ہوا میں اتنی آلودگی ہے کہ آپ اس کا مزہ چکھ بھی سکتے ہیں اور اسے صاف دیکھ بھی سکتے ہیں۔لاکھوں، کروڑوں لوگ اسی کرب سے گزر رہے ہیں۔ دہلی ایک گیس چیمبر میں بدل چکی ہے، وزیر اعلیٰ کو بھی اس کی خبر ہو گئی ہے اور شاید وفاقی حکومت کو بھی۔ اس لئے صورتحال سے نمٹنے کے لئے ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی گئی ہے، اتوار کو نہیں پیر کو کیونکہ اتوار تو چھٹی کا دن ہے۔

کاشتکاروں کی نوازش:
ہریانہ، پنجاب اور مغربی اتر پردیش میں کسان گندم بونے کی تیاری کر رہے ہیں، دھان کی فصل کٹ چکی ہے، کھیتوں کو صاف کرنے میں جو لاگت آتی ہے اس سے بچنے کے لئے کسان روایتاً آگ کا سہارا لیتے ہیں، یہ دھواں معلوم نہیں کیوں دہلی کا رخ کرتا ہے، لیکن آلودگی کے لئے صرف کسان ہی ذمہ دار نہیں ہیں۔دہلی پہلے سے ہی دنیا کے سب سے آلودہ شہروں میں شمار کیا جاتا ہے، بس اس کا زیادہ ذکر نہیں ہوتا۔ یہاں گاڑیوں کی تعداد ممبئی، چنئی اور کولکتہ میں گاڑیوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے، شاید ہر گاڑی ہر روز سڑک پر ہوتی ہے، ہر گاڑی سے دھواں نکلتا ہے اور اس ہوا میں ضم ہو جاتا ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔ سڑکوں پر جھاڑو لگتی ہے، دھول اڑتی ہے اور ہوا میں ہی رہ جاتی ہے، اسی ہوا میں ہم سانس لیتے ہیں۔چاروں طرف بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے چل رہے ہیں، لاکھوں فلیٹ زیر تعمیر ہیں۔ وہاں سے دھول مٹی اڑتی ہے اور ہوا میں ہی رہ جاتی ہے۔دہلی اور اس کے گرد و نواح میں کئی بڑے صنعتی علاقے ہیں، لاکھوں چھوٹی بڑی فیکٹریاں حسب توفیق اپنا کردار ادا کرتی ہیں، ایک بڑا تھرمل بجلی گھر ہے، وہاں سے فلائی ایش اڑتی ہے، غنیمت کے یہ گذشتہ برس سے بند ہے جبکہ ہر رات لاکھوں ٹرک دہلی سے ہو کر گزرتے ہیں، ٹرک تو چلے جاتے ہیں، ان کی یادیں اس ہوا میں باقی رہ جاتی ہیں جس میں دو ڈھائی کروڑ انسان سانس لیتے ہیں۔
بچوں کے پھیپھڑے تباہ:
ہر مہینے کبھی چونکا دینے والی تو کبھی ڈرا دینے والی رپورٹیں موصول ہو تی ہیں۔ ہر سال دہلی میں 30 ہزار لوگ فضائی آلودگی کی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچتے ہیں، بچوں کے پھیپھڑے تباہ ہو رہے ہیں، بڑوں کے شاید ہو چکے ہیں لیکن دیکھنے سے ایسا لگتا نہیں کہ کسی کو فکر ہے۔اگر ہوتی تو لوگ پوری ذمہ داری حکومت پر نہ ڈالتے، وفاقی حکومت دہلی کی ریاستی حکومت کو نشانہ نہ بناتی، اور دہلی کی حکومت یہ نہ کہتی کہ مسئلہ صرف ہمارا نہیں ہے، ہواو ¿ں پر کسی کا اختیار نہیں، وہ کسی بھی رخ چل سکتی ہیں۔فی الحال مسئلہ یہ ہے کہ ہوا قطعی ساکت ہے۔ تیز ہوا چلے گی تو حالات کچھ بہتر ہوں گے لیکن ماہرین دو خطرناک باتیں یاد دلا رہے ہیں: حالات کو بہتر بنانے کے لئے کوئی قلیل المدتی حل نہیں ہے، اور طویل المدتی اقدامات کے بارے میں کسی نے سوچنا شروع نہیں کیا ہے۔
اپنے رب سے مانگیں معافی:
حالات سردیوں میں زیادہ خراب ہو جاتے ہیں۔ فضائی آلودگی ناپنے والے آلات بھی اپنی ناکامی تسلیم کر رہے ہیں، آلودگی کتنی بھی ہو وہ زیادہ سے زیادہ 999 تک ہی ریڈنگ دے سکتے ہیں، ہفتہ کے روز شہر کے کم سے کم پانچ علاقوں میں یہ ریڈنگ 999 تھی!لیکن اس مرتبہ ایک فرق تو آیا ہے، وہ میڈیا جوہفتوں تک شینا بورا کے قتل کیس پر بحث کرنے سے نہیں تھکتا تھا، آج آلودگی کی بات کررہا ہے۔اگر یہ خبر ٹی وی چینلوں پر اور اخبارات میںزندہ رہے تو عین ممکن ہے کہ صاف ہوا بھی ایک انتخابی موضوع بن جائے، ہو سکتا ہے کہ عام شہریوں کو بھی یہ احساس ہو جائے کہ جو دھواں ان کی گاڑیوں اور اسکوٹروں سے نکلتا ہے، وہ ان کے اپنے پھیپھڑوں میں بھی جاتا ہے اور اس ہوا کے ساتھ انتہائی مہین زرات بھی، جو پھیپھڑوں میں ہی رچ بس جاتے ہیں۔جب تک یہ بیداری پیدا ہوگی، مقامی باشندوں کو اسی گیس چیمبر میں رہنا ہوگا، یہاں سے کوئی فرار نہیں۔ میری آنکھوں میں جلن تو ہے، بس سینے میں طوفان کا انتظار ہے۔ جبکہ افق پر جو دھند ہے وہ بس ہلکا سا نمونہ ہے…جو بہت معمولی پیمانے پہ ہے….کیونکہ سابقہ اقوام جن برائیوں کی وجہ سے تباہ کی گئیں، آج وہی برائیاں ہم میں موجود ہیں اور اس پہ فحر بھی ہے….آئیے، اپنے رب سے معافی مانگیں….کہ وہ معاف کرنے والا بڑا رحیم و کریم ہے…. لیکن کوئی نادم ہوتو سہی ….



Delhi and Diwali

By S A Sagar
The Ministry of Environment and Forests also held a meeting with officials of Haryana, Uttar Pradesh, Rajasthan, Punjab and Delhi, in which steps to control pollution were discussed. According to reports, a day after some private schools in the Delhi-NCR region decided to shut down due to the spike in pollution levels, the Municipal Corporation of Delhi (MCD) also decided to keep its schools shut on Saturday. Air in the city has been severely polluted since Diwali and many schools in Delhi, Noida and Gurgaon declared holiday on Friday and Saturday. Most others cancelled outdoor trips and sports classes so that children don’t have to breathe polluted air during school hours. While MCD schools will be shut, Delhi government schools will remain open. On the other hand, hundreds of people, including children on Sunday staged a protest at Jantar Mantar over the deteriorating air quality in the national capital, demanding the government to take effective initiatives to curb the rising air pollution. The protest, organised by various citizen’s group of Delhi, was also joined by celebrities such as Nafisa Ali among others. “To curb the pollution, Delhi Government’s Odd-Even initiative was a huge success. If possible, it should be implemented once again,” actress Nafisa Ali said. Another protester said: “Delhi has already become a gas chamber… how will people breathe in such pollution.” Delhi on Saturday witnessed the highest pollution levels of the seasons. The smog that hung low over the city kept pollution levels extremely high, breaching the safe limit by over 17 times at several places. An emergency cabinet meeting has also been called at the Chief Minister Arvind Kejriwal’s residence in the afternoon. The meeting is likely to take place at 12:30 pm and will be attended by all the cabinet ministers and the senior officials of health and the environment department.

071116 hawa thami saans ruki by s a sagar

The Month of SAFAR کیا صفر کا مہینہ منحوس ہوتا ہے؟

ایس اے ساگر 
اسلامی کلینڈر کے دوسرے مہینے صفر المظفر کی آمد ہوچکی ہے اور اس بابرکت مہینے نے اپنی رحمتیں بکھیرنی شروع کر دی ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنی عدم ناواقفیت اور غلط عقیدہ کے سبب اس مہینے کو نہ صرف منحوس گردانتے ہیں بلکہ اس کے اختتام پر آپس میں اس طرح خوش خبریاں سناتے پھرتے ہیں گویا کوئی بہت بڑی مصیبت ٹل گئی ہو، خوشی کی انتہا میں پھولے نہیں سماتے۔ ان حضرات کا حال یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ماہ میں سخت مصائب کا سامنا ہوتا ہے، پریشانیوں اور دکھوں کا نزول اور آزمائش و آفات کا وقوع ہوتا ہے، اسی طرح کی اور بھی بہت سی بے بنیاد باتیں ہیں جبکہ یہ سراسر باطل عقیدہ ہے اور جاہلیت کی باقیات میں سے ہے، حق سبحانہ و تقدس کی ذات عالی نے اس قسم کی ہر لغو سوچ و فکر کی قید سے نعمت ِاسلام و دولتِ ایمان سے نواز کر آزاد فرمادیا ہے۔
کام کی ابتدا سے اجتناب:
اس کے باجوجود بہت سے حضرات سمجھتے ہیں کہ اس ماہ میں کسی کام کی ابتدا نہ کی جائے ۔ وہ ڈرتے ہیں کہ یہ مہینہ مبارک نہیں ہے، وہ اس ماہ میں سفر کرنے سے بھی پرہیز کرتے ہیں کہ اگر ہم نے سفر کیا تو دشمنوں سے سامنا ہو جائے گا، اسی طرح نکاح و دیگر خوشی کی تقریبات کا انعقاد بھی اس ماہ میں کرنے سے کتراتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس ماہ میں کوئی خرید و فروخت کی۔ مثلا کار ،گھر ،کارخانے ،زمین وغیرہ تو وہ تجارت نفع بخش نہیں ہوگی،
جنات کے اتر نے کا عقیدہ:
بعض شہروں میں مشہور ہے کہ اندھے اور لنگڑے جنات کی ایک جماعت اس ماہ میں آسمان سے اترتی ہے، لہذا ہمارے نادان حضرات زمین پر بڑی احتیاط سے قدم رکھتے ہیں اوربہت چوکس اور محتاط ہوکر چلتے پھرتے ہیں کہ کہیں ہماری وجہ سے کسی جنات کو تکلیف نہ پہنچ جائے اور ہمیں کسی بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے، پھر مہینے کے آخرمیں گھر کے درودیوار، الماریاں، صندوق اور دیگر سامان کو ڈنڈوں سے کوٹتے ہیں تاکہ جو کوئی بھی جن چھپا بیٹھا ہو وہ واپس بھاگ جائے… یہ بھی سراسر باطل ہے، اسلامی شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔
ختم شریف کا اہتمام:
بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ اس ماہ کے اول تیرہ دن سب سے زیادہ دشوار ہوتے ہیں، ان ایام کو ’تیرہ تیزی ‘یا ’تیز تیرہ‘ کے نام سے جاناجاتا ہے، ان میں وہ لوگ مخصوص کھانے، مثلاًابلے ہوئے چنے یا ابلی ہوئی گندم اور چوری وغیرہ بنا کر تقسیم کرتے ہیں، تاکہ بلائیں ٹل جائیں، اسی طرح بعض گھرانوں میں مصائب کو ٹالنے کی غرض سے اجتماعی قرآن خوانی اور ختم شریف کی مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔انھیں کون سمجھائے کہ یہ سب بدعات ہیں، قرآن و حدیث میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ان افعال کا باطل ہونا عقل والوں کے لئے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
آخری بدھ منانا :
ماہ صفر کا آخر ی بدھ بدعات کا ارتکاب کرنے والے اور منکرات پر یقین رکھنے والے نادان مسلمان ماہ صفر کے آخری بدھ کے حوالے سے بھی مختلف عقائد رکھتے ہیں اور مختلف افعال اختیار کرتے ہیں، جو درج ذیل ہیں۔بعض حضرات اس بدھ کو عید مناتے ہیں، بعض اس دن چھٹی کرنے کو اجر و ثواب سمجھتے ہیں اور دوسرے بعض اس بدھ کو سال کا سب سے بھاری دن تصور کرتے ہیں ،اس دن مٹی کے تمام برتن توڑ دیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ مزید یہ کہ اس دن یہ لوگ چاشت کے وقت چار رکعت نماز ایک سلام سے پڑھتے ہیں، ہر رکعت میں ایک سورت کو کئی مرتبہ مکر ر پڑھا جاتا ہے، پھر نماز کے بعد’دعائے معین‘ پڑھتے ہیں اور فقرا میں روٹی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں۔بعض علاقوںمیںتو ’روٹی بوٹی‘ کے عنوان پر کھانا تقسیم ہوتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس سے نازل شدہ بلائیں دفع ہو جاتی ہیں نیز بعض علاقوں میں لوگ آیت سلام:
سَلَام عَلَی نوحٍ فِی العَالَمِینَ
(الصافات، آیت:79)
کو برتن میں لکھ کر تبرّکاً اس میں پانی پیتے ہیں، ان کے اعتماد کے مطابق ایسا کرنا شروفساد کو دور کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دن میں روزے کا اہتمام اور شام میں پر تکلف حلوے بھی قابلِ ذکر ہیں،بعض حضرات تو ان دنوں شہر کے مضافات کی طرف چلے جاتے ہیں، تاکہ شروفتنہ سے بچ جائیں۔ جبکہ اہل علم کے نزدیک یہ سب بلا مبالغہ باطل اور من گھڑت ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ملی اور نہ کسی نبی، صحابی، تابعی یا کسی ولی اللہ کو ایسا عمل کرتے ہوئے یا ایسا عقیدہ رکھتے ہوئے پایا ہے، یہ اعتقاد و افعال صرف اسلام سے پہلے دورِجہالت میں پائے جاتے تھے، جبکہ اسلام کے علاوہ کسی چیز میں خیر نہیں۔انطیں کون سمجھائے کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگوں کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ ماہِ صفر کی آمد پر برا شگون لیتے تھے اور اسے آفات اور مصائب کے وقوع کے اعتبار سے خاص قرار دیتے تھے، جبکہ اسلام نے آکر اس جہالت پر حق کی کاری ضرب لگائی اور اس کا سدِ باب کیا ہے۔
کسے کہتے ہیں نحوست؟
انھیں کون سمجھائے کہ تمام مہینے اللہ نے پیدا کئے ہیں اور انسان ان مہینوں میں افعال و اعمال کرتا ہے،لہذا ہر وہ زمانہ مبارک ہے جس میں اللہ کی اطاعت کی جائے اور ہر وہ زمانہ انسان پر منحوس ہے جس میں وہ اللہ کی نافرمانی کرے۔ اللہ کی معصیت اور گناہوں کی کثرت اللہ کو ناراض کرنے کاسبب ہے ، اسی طرح گنا ہ گار فی نفسہ منحوس ہوتا ہے، سو وہ اللہ کی امان سے نکل جاتا ہے اور مصائب و مشاکل سے مامون و محفوظ نہیں رہتا۔ضعیف الاعتقادی کے شکار یہ وہمی لوگ مسلمانوں کی تاریخ کی طرف نظر نہیں دوڑاتے کہ بڑی بڑی فتوحات اور عظیم مقاصد اسی ماہ میں حاصل ہوئیں ،نیز سلف صالحین اور امت کے بہترین لوگوں کی ازدواجی زندگی کا آغاز اکثر اس ماہ سے ہوا، دراصل یہ فساد عموماً دین کی دعوت سے دوری کی وجہ سے وجود میں آیااور یقین میںکمزوری آتی چلی گئی۔ اس سلسلہ میں جامعہ فاروقیہ کے استاذ و رفیق دارالافتا مفتی عطاءالرحمن رقمطراز ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
”لا عدوی ولاصفر ولا غول“
کہ”مرض کے متعدی ہونے، صفر اور غول کی کوئی حقیقت نہیں۔“
(الصحیح لمسلم ،باب:لا عدوی ولا طیرة الخ)
حدیث قدسی میں ’لاصفر‘کا لفظ واقع ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ صفر کا مہینہ بھی دوسرے مہینوں کی طرح ہے، یعنی وقوع شر کے ساتھ یہ مختص نہیں ہے ایک اور مقام پر حدیث میں وارد ہوا کہ:”قال رسول اللہ صلی اللہ علیھ وسلم :لاطیرة،وخیرھا الفل قالوا:وماالفل؟قال:الکلمة الصالحة یسمعھا احدکم“
یعنی ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،بد شگونی کچھ نہیں ہے، اس سے بہتر فال نیک ہے ،
صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )، فال کیا ہے؟
فرمایا”اچھی بات جو تم میں سے کوئی سنے“۔
(صحیح البخاری)
گویا فال اچھی توقع کرنے کو کہتے ہیں کہ آدمی کوئی کلمہ یا بات سنے اور اس سے کوئی نیک معنی مراد لے اور ’طیرة‘ اس کے بر عکس ہے، یعنی براشگون لینا،شریعت نے ہمیں بدشگونی سے روکا اور نیک فالی کی اجازت دی ہے،ایک تو اس سے عقل وعقیدے میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا، دوسرے یہ کہ اس میں مصلحت بھی ہے، مثلاً کسی مریض کو کہا جائے کہ
 ”آپ تو صحت مند ہیں۔“
اور اس سے مراد لیا جائے کہ مریض جلدا پنی بیماری سے چھٹکارا پاکر صحت مند ہوجائے گا۔ اسی طرح کسی گمشدہ چیز کو تلاش کرنے والے کو کہا جائے کہ آپ تو واصل ہیں،اگر غور کیا جائے تو نیک فالی سے ثابت ہونے والے فوائد آپ کو نظر آئیں گے، مثلاً دل میں خوش گواری اور بشا شت کا پیدا ہونا ،عزائم میں قوت اور حوصلوں میں بلندی ،نیک مقاصد کے حصول میں ہمتوں کی زیادتی، نیز غموں میں کمی کا واقع ہونا اور بہت کچھ اس کے فوائد میں سے ہے۔جہاں تک بات ہے بدشگونی کی تو اس کے نقصانات واضح ہیں،اس سے سوچ وفکر میں فساد پیدا ہوتا ہے ،دل تنگ ہو جاتا ہے ،ہمتیں سلب ہو جاتی ہیں اور انسان ایک انجانے نقصان سے ڈرتے ہوئے جیتا ہے، مثلاً کوئی پرندہ جس کے بارے میں بدشگونی کی جاتی ہے،آکر گھر کی دیوار پر بیٹھ جائے تو گھر والے دن بھر نہ صرف خوف کے سائے میں کاٹتے ہیں کہ اب کوئی آفت آئے گی اور ہمیں تباہ کردے گی، بلکہ اس حقیقت کوبھی فراموش کردیتے ہیں کہ نفع ونقصان ،آبادی وبربادی اللہ کے ہاتھ میں ہے یہی مثال کسی زمانہ اور نام وغیرہ سے بدشگونی کی ہے۔
غلط استد لال اور اس کا رد:
بعض لوگ ماہِ صفر کے منحوس ہونے کو قرآن کی القمر، آیت :19 سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور درج ذیل آیت پیش کرتے ہیں:
کہ”ہم نے ایک مسلسل نحوست کے دن میں ا ±ن پر تیز آندھی والی ہوا چھوڑ دی تھی۔“
اسی طرح کی چند دیگر آیات پیش کرتے ہیں۔سو اس کے جواب میں علمائے کرام یہ فرماتے ہیں کہ کسی بھی دن کو جب نیک بختی یا بد بختی کے ساتھ متصف کیا جائے تو اس کی نسبت لوگوں کی طرف کی جاتی ہے اور یوں کہا جاتا ہے کہ فلاں دن فلاں شخص کے لئے بڑا نیک بخت ثابت ہوا ،وہ شخص اس دن خوش اور سود مند رہا اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دن فلاں آدمی پر بڑا بھاری اور منحوس تھا ،وہ آدمی اس دن بڑی مصیبت میں رہا ،اس دن اسے سزا دی گئی۔اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی بھی دن اپنے اوقات کی وجہ سے منحوس نہیں ہوتا، بلکہ انسان کے اپنے کرتوت اور گناہوں کی سزا کی وجہ سے اس پر نحوست پڑتی ہے۔وگرنہ قرآن کی ایک اور آیت سے توہفتہ کے پورے سات دنوں کی نحوست ثابت ہوتی ہے،سورة فصلت کی آیت16 میں اللہ تعالی یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ
’ چناں چہ ہم نے کچھ منحوس دنوں میں ان پر آندھی کی شکل میں ہوا بھیجی، تاکہ انہیں دنیوی زندگی میں رسوائی کا مزہ چکھائیں اور آخرت کا عذاب اس سے بھی رسوا کن ہے اور ان کو کوئی مدد میسر نہیں آئے گی۔“ عذاب کے یہ ایام سات راتیں اور آٹھ دن تھے، اس طرح سے تو قیامت تک ہر ایک دن نحوست والا ٹھہرے گا، پھر یہ حضرات حدیث سے تمسک واستدلال کی کوشش کرتے ہیں، اس سلسلے میں حدیث پیش کرتے ہیں کہ:
” جس نے مجھے صفر کے گزر جانے کی خبری دی میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔“
اسی طرح ایک اورروایت بدھ کے دن کی نحوست پر پیش کرتے ہیں کہ :
” بدھ کا دن مستقل نحوست کا دن ہے۔“
جبکہ یہ دونوں روایتیں من گھڑت اور موضوع ہیں۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے موضاعات کبری کے صفحہ 275,225 پر اور علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب موضوعات 376/1 میں ا س کی وضاحت کی ہے۔
مکروہ اشیا کو دیکھنے کے وقت کی دعا :
آپ میں سے جب کوئی شخص کسی ایسی چیز کو دیکھے کہ جس سے بد فالی کی جاتی ہے تووہ اپنی حاجت او رکام سے نہ رکے، بلکہ اپنا کام کرتا رہے ۔ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جن کا راستہ اگر کا لی بلی کاٹ جائے تو وہ واپس گھر کو لوٹ آتے ہیں اور جس کام کے لئے جارہے ہوتے ہیں اس سے رک جاتے ہیں۔ ابوداو ¿د میں عروة بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ” طیرة“ کا ذکر کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
پس جب تم میں سے کوئی ایسی کسی شے کو دیکھے تو یہ کہے: ”اللھم لا یاتی باالحسنات الا نت، ولا یدفع السیئات الا نت، ولاحول ولا قوة الا بک“
( باب فی الطیرة)
ترجمہ ” اے اللہ! بھلائی صرف آپ کی طرف سے ہی آتی ہے اور برائی کو صرف آپ ہی دورفرماتے ہیں ، نیک کام کرنے کی طاقت اور گناہوں سے بچنے کی قوت صرف آپ کی طرف سے ہے۔“
اگر ایسے موقع پر انسان اپنی حاجت سے رک جائے تو وہ گناہ کا مرتکب کہلائے گا، حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایاکہ
” جو پرندے کی وجہ سے حاجت سے رک گیا اس نے شر ک کیا۔“
 اللہ کی تقدیر وتاثیر میں زمانے کو کوئی دخل نہیں ، لہٰذا صفر کا مہینہ بھی دیگر مہینوں کی طرح ہے۔ہر امتی کو اسلامی عقائد اور اسلامی اصول سیکھ کر اس کے مطابق زندگی گزارنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے اور جو بات دین میں نہ ہو اسے دین کی طرف منسوب نہ کیا جائے، نیز نفع ونقصان کے اختیار کا سو فی صد یقین اللہ کی ذات سے ہونا چاہئے کہ جب وہ خیر پہنچانا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچا سکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کر دے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔سورة یونس:107 میں یوں وارد ہے کہ ” اور اگر خدا تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تم سے بھلائی کرنا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے فائدہ پہنچاتا ہے اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔“


The Month of SAFAR
By S A Sagar
‘Safar’ is the second month in the Islamic calendar. It is one of “Al-Ashhur-al-hurum” the four sancti¬fied months in which battle was prohibited in the days of the Holy Prophet Sallallaahu Alaihi wasaalam. Some people believe that this month is an unlucky month, therefore, they avoid to hold marriage ceremo¬nies or any other happy gatherings in this month. This belief is totally baseless and it is a part of the su¬perstitions rampant in the ignorant of Arabia before the advent of Islam. The Holy Prophet ? eradicated all such superstitious beliefs. Specially in the case of the month of Safar, he expressly said,
لا صفر
(To hold) the month of Safar (as unlucky) is nothing. Therefore, Muslims should not give ear to such su¬perstitions. There is no problem in holding marriages etc, in this month. However, no specific mode of worship or other special rules are set by the Shari’ah to observe this month. Safar Ul Muzafar word means “whistling of the wind”. When this name was assigned to this month, it was probably a windy time of the year. As mentioned earlier, most of the months were named according to weather conditions at the time. However, since they are based on the moon, the months shift about 11 days every year. So, the seasons do not necessarily correspond to the name of the month anymore. This time of the year was considered to be cursed as many catastrophes and calamities took place. However this belief has been proven to be false and totally without foundation (absurd).
This can also be confirmed by the following hadeeth.
Hadhrat Jaabir Radhi ALLAAHU Anhu has said that, “I have heard the ProphetPeace be Upon him saying, the descending of illness and evil superstition befalling in the month of Safar is untrue.” (Muslim)
Events:
1. The Battle of Abwaa took place on 12th of Safar in the year 2 A.H.
2. The Battle of Khaibar took place in the year 7 A.H.
3. Hadhrat Ali Radhi ALLAAHU Anhu married Prophet Peace be Upon him daughter Hadhrat Fatima Radhi ALLAAHU Anhu in the latter days of Safar 2 A.H.
4. Khubaib Ibn Adey Radhi ALLAAHU Anhu was martyred in Safar in the year 4 A.H. in Makkah.
5. Zaid Ibn Dathina (RA) was martyred in this month in the year 4 A.H. in Makkah.

021116 kiya Safar ul Muzaffar ka maheena manhoos hota hai by s a sagar

What is Islamic New Year? کسے کہتے ہیں ہجری کلینڈر؟

ایس اے ساگر
 وعن عبد الله بن هشام قال : 
كان أصحاب رسول الله ﷺ – 
يتعلمون هذا الدعاء إذا دخلت السنة أو الشهر : 
” اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان ، والسلامة والإسلام ، ورضوان من الرحمن ، وجوار من الشيطان ” . 
رواه الطبراني في الأوسط ، 
وإسناده حسن .
–  كان أصحابُ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يتعلَّمون هذا الدُّعاءَ إذا دخَلَتِ السَّنَةُ أو الشَّهرُ اللهمَّ أدخِلْه علينا بالأمنِ والإيمانِ والسَّلامةِ والإسلامِ ورِضوانٍ مِنَ الرَّحمنِ وجَوازٍ مِنَ الشَّيطانِ
الراوي:
عبدالله بن هشام 
المحدث:  
الهيثمي       
–   المصدر:  مجمع الزوائد  
–   الصفحة أو الرقم:  10/142خلاصة حكم المحدث:  إسناده حسن‏‏

ہجری سال قمری ہجری تقویم 1437 رخصت پذیر ہے جبکہ 1438 کی آمد آمد ہے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ عام طور پر امت اس کے ماہ و سال سے بعد اختیار کرچکی ہے۔بعض کو تو علم ہی نہیں کہ اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے بعض ممالک میں اسے اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری تقویم سے مراد تواریخ کا حساب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے لگانا ہے۔ اس میں جو مہینے استعمال ہوتے ہیں ان کا استعمال اسلام سے پہلے بھی تھا۔ جس میں سے محرم پہلا مہینہ ہے۔ چونکہ ایک قمری تقویم ہے لہذا اس کا ہر مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع ہوتا ہے۔ویکی پیڈیا کے مطابق سال کا کل دورانیہ 354.367056 دن اور ایک ماہ کا کل دورانیہ 29.530588 دن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کو ہجرت 26 صفر کو ہوئی۔ مگر چونکہ عرب لوگ سال کا آغاز محرم سے کیا کرتے تھے اس لئے اسلامی سال کو ایک ماہ 25 دن پیچھے سے شمارکیا گیا۔ اس لئے پہلی قمری ہجری کی پہلی تاریخ یعنی اول محرم مو ¿رخہ 16 جولائی 622ءکے مطابق ہوئی۔ حسب سابق اس میں بارہ ماہ رکھے گئے۔
1 ۔محرّم یا محرم الحرام
2 ۔صفر یا صفر المظفر
3۔ ربیع الاول
4 ۔ربیع الثانی
5 ۔جمادی الاولی
6 ۔
جمادی الثانیہ
 7 ۔رجب یا رجب المرجب
8 ۔شعبان یا شعبان المعظم
9 ۔رمضان یا رمضان المبارک
10۔ شوال یا شوال المکرم
11 ۔ذوالقعدہ
12 ۔ذوالحجہ

ہر مہینہ انتیس یا تیس دن کا ہوتا ہے۔ جس کے شروع ہونے کا فیصلہ چاند کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ قمری ہجری سال ہر عیسوی سال کی نسبت دس یا گیارہ دن پہلے شروع ہوتا ہے یعنی ہر سال ہجری اور عیسوی سال کا وقفہ کم ہو جاتا ہے۔ اندازا ہے کہ سن 20842 میں ایک ہی قمری ہجری اور عیسوی سال ہوگا۔ ہر 33 یا 34 سال بعد ایسا موقع آتا ہے جب ایک قمری ہجری سال مکمل طور پر ایک عیسوی سال کا اندر ہی رہتا ہے جیسا سن 2008 عیسوی میں۔
عربوں کی اصل تقویم:
اس سلسلہ میں جامعہ بنوریہ عالمیہ، انچارج تخصص فی التفسیر وڈپٹی ایڈیٹر ہفت روزہ اخبارالمدارس سینئر ریسرچ اسکالر مولانا محمد جہان یعقوب رقمطراز ہیں کہ عربوں کی اصل تقویم قمری تقویم تھی، مگر وہ مدینہ منورہ کے پڑوس میں آباد یہودی قبائل کی عبرانی (یہودی) تقویم کے طرز پر اپنے تجارتی اور ثقافتی فائدے کی خاطر خالص قمری کی بجائے قمری شمسی تقویم استعمال کرتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حجة الوداع کے موقع پر اس قمری شمسی تقویم کو ہمیشہ کیلئے منسوخ فرماکر خالص قمری تقویم کو بحال رکھا، جس کا آغاز ہجرت مدینہ کے اہم واقعے سے کیا گیا تھا، لہٰذا یہ تقویم ہجری تقویم کے نام سے موسوم ہوئی۔ اس کی ابتدا خود حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے ہوئی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں سرکاری مراسلات میں ’اسلامی قمری ہجری‘ تاریخ کا اندراج لازمی قرار دیا، یہ ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جوان کی یاد دلاتا رہے گا۔
احکام شرعیہ کا دارومدار:
انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ آج کے مسلمان اور بالخصوص نئی پود کو، جو مستقبل کی معمار و صورت گرہے، اسلامی ہجری تقویم کے مہینوں کے نام تک معلوم نہیں، اگرچہ دفتری ضروریات کے تحت گریگورین (عیسوی) کیلندڑ کا استعمال درست ہے، تاہم اسلامی مہینوں کے ناموں کا جاننا اور ان کی عظمت و فضیلت کا قائل ہونا بھی فرض کفایہ ہے۔ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم میں احکام شرعیہ مثلاً: حج و غیرکا دارومدار قمری تقویم پر ہے۔ روزے قمری مہینے رمضان کے ہیں۔ نزول قرآن بھی رمضان میں ہوا، عورتوں کی عدت، زکوٰة کے لئے سال گزرنے کی شرط وغیرہ سب قمری تقویم کے اعتبار سے ہیں. عیدین یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کا تعلق بھی قمری تقویم سے ہے۔ ناس ہو لارڈ میکالے کے وضع کردہ نظام تعلیم کا، جس نے ہمیں اسلاف کی دوسری زریں روایات کے ساتھ ساتھ اپنی اصل ہجری قمری تقویم بھی بھلادی۔ ہمیں اپنے بچوں کو اہتمام وخصوصیت سے اسلامی سال کے مہینوں کے نام یاد کروانے چاہئیں۔قمری تقویم کی بنیاد زمین کے گرد چاند کی ماہانہ گردش پر ہے اور ہر مہینے کا آغاز نئے چاند سے ہوتاہے۔قمری تقویم میں تاریخ کا آغاز غروب شمس سے ہوتا ہے اور قمری مہینہ کبھی 29 دن کا اور کبھی 30 دن کا ہوتا ہے۔ یوں قمری سال عموما 354 دن اور بعض مرتبہ 355 دن کا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف موجودہ رائج عیسوی تقویم میں آج کل دن کا آغاز رات بارہ بجے سے ہوتا ہے اور اس میں یہ بھی طے ہے کہ ہر سال کون سامہینہ کتنے دنوں کاہوگا، جبکہ فروری کا مہینہ عام طور پر 28 دن کا لیاجاتا ہے اور لیپ یعنی چار پر تقسیم ہونے والا ہر چوتھے سال میں 29 دن کا ہوتا ہے۔ مہینوں کی یہ تعداد خود ساختہ ہے، کسی قاعدہ یا ضابطہ کے تحت نہیں البتہ سب مہینوں کے دنوں میں مجموعی تعداد 365 جبکہ لیپ کے سال میں 366 دن ہوتے ہیں۔
سال کے تمام موسم :
اس کے مقابل قمری تقویم میں ابہام ہے، جس میں کئی مصلحتیں پوشیدہ ہیں، مثلا؛ بعض اہم مواقع پر اس ابہام سے پیدا ہونے والی انتظاری کیفیت یاسسپنس نہایت مسرت افزا ہوتا ہے، اہل اسلام عید الفطرکے ہلال کی امکانی رویت و عدم رویت سے پیدا ہونے والی انتظاری کیفیت میں چاند دیکھنے کی والہانہ کوشش کرتے ہیں۔بچوں، جوانوں ، بوڑھوں ، مردوں اور عورتوں کی چاند دیکھنے کی یہ مسرت آمیز مساعی ایک عجیب سماں پیدا کرتی ہیں۔ اگر عید وغیرہ کا دن پہلے سے ہی سو فیصد یقین کے ساتھ متعین اور مقرر ہوتا تو یقینا ہلال عید کی یہ خوشی نصیب نہ ہوتی۔ قمری مہینوں کی موسموں سے عدم مطابقت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بعض نہایت اہم احکام شرعیہ مثلا؛ صیام رمضان کی تعمیل زندگی بھر میں تمام موسموں میں ممکن ہوجاتی ہے، مثلا؛ ایک شخص بالغ ہونے پر رمضان کے روزے رکھنا شروع کرتا ہے اور پچیس برس روزے رکھنے پر جسمانی صحت کے لحاظ سے روزے رکھنے کے قابل رہتاہے، تو وہ موسم گرما، موسم سرما ،موسم بہار اورموسم خزاں یعنی سال کے تمام موسموں میں روزے رکھنے کی سعادت حاصل کرلیتا ہے۔ اگر اس طرح کے احکام کے لئے شمسی مہینے متعین کئے جاتے تو ساری عمر ایسے احکام کی تعمیل ایک ہی موسم میں ہوتی، بلکہ شمالی نصف کرہ اور جنوبی نصف کرہ کے موسمی تضاد کی وجہ سے بعض علاقوں اور ملکوں کے لوگ موسم گرمامیں اور دوسرے علاقوں کے لوگ موسم سرما میں ان احکام کی تعمیل کے لئے ہمیشہ پابند ہوکر رہ جاتے اور ان احکام کی بجاآوری کے سلسلے میں موسمی تغیرات کا فائدہ نہ اٹھاسکتے، اسلامی تقویم نے ہی یہ بات ممکن بنادی ہے۔ اس کے علاوہ ماہرین نے قمری ہجری تقویم کی بعض دیگر خصوصیات بھی بیان کی ہیں، من جملہ ان میں یہ بھی ہے کہ جب سے سن ہجری کا آغاز ہوا ہے، اس وقت سے لے کر آج تک اس میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، یہ خصوصیت غالباً صرف قمری تقویم ہی کو حاصل ہے۔ سن ہجری میں ہفتے کا آغاز جمعہ کے دن سے ہوتا ہے، جو سیدالایام یعنی تمام دنوں کا سردارہے۔ ہجری تقویم میں شرک ، نجوم پرستی یا بت پرستی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ مہینوں اور دنوں کے ناموں کو دوسری تقاویم کی طرح کسی بادشاہ، سیارے یا دیوی ، دیوتا سے کوئی نسبت نہیں. شرائع سابقہ میں بھی دینی مقاصد کیلئے یہی تقویم مستعمل تھی بعد میں لوگوں نے اس خالص قمری تقویم میں تحریف کرتے ہوئے اسے شمسی یا قمری شمسی تقویم میں بدل ڈالا۔ سال کا آغاز یکم محرم الحرام سے ہوتاہے، اور محرم الحرام کا یہ دن ہمیں ایک عظیم اور لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے کہ اس دن مراد رسول حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ایک بین الاقوامی سازش کے نتیجے میں شہید کردیا گیا تھا، اسی طرح اس مہینے کے ابتدائی دس دن ہمیں اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی فقید المثال قربانی کی یاد دلاتے ہیں کہ دین کی خاطر کیسی کیسی نابغہ روزگار شخصیات کو خاک و خون میں تڑپایا گیا، لہٰذایہ دین جب بھی قربانی کا تقاضا کرے، ان عظیم نفوس قدسیہ کی قربانیوں کو یاد کرکے قربانی کے لئے بصد دل وجان تیار ہوجانا،
کہ دانہ خاک میں مل کر گل وگل زار ہوتا ہے
اہل اسلام کو نئے سال کی مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ ہم یہ پیغام بھی دیناچاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی اصل پہچان یعنی اسلامی ہجری سال کو بالکل نہیں بھلا دینا چاہئے، بلکہ اس کے نام بھی یاد رکھنے چاہئیں اور اسے استعمال بھی کرناچاہئے، کہیں ایسا نہ ہوکہ آئندہ چند سال میں ہماری نئی پود کے ذہنوں سے یہ تصور ہی محو ہوجائے کہ ہم بھی ایک زندہ جاوید تہذیب و تاریخ کے امین ہیں، ہمارا بھی ایک شاندار ماضی ہے، ہمارا بھی ایک تشخص ہے۔
ہجری سے عیسوی تاریخ میں منتقلی:
قمری ہجری سے عیسوی تاریخ میں منتقلی کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ہجری سال کو 0.970224 سے ضرب دیں اور اس میں 621.5774 جمع کر دیں۔ جواب میں اعشاریہ سے پہلے جو حصہ ہے وہ سال کو ظاہر کرے گا۔ اگر اعشاریہ کے بعد والے حصے کو 365 سے ضرب دے دی جائے تو جواب میں ان دنوں کی تعداد آ جائے گی جتنے دنوں کے بعد اس عیسوی سال میں یکم محرم ہوگی۔ یہ اعداد و شمار ایک یا دو دن کے فرق سے معلوم ہوں گے کیونکہ ایک ہی وقت میں دنیا کےمختلف حصوں میں دو مختلف اسلامی تاریخیں ممکن ہیں۔ 0.970224 اصل میں عیسوی سال کے حقیقی دورانیہ کو ہجری سال کے حقیقی دورانیہ پرتقسیم کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر 1428 کو 0.970224 سے ضرب دیں اور اس میں 621.5774 جمع کر دیں تو جواب میں 2007.057272 حاصل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ 1428 ہجری سن 2007 عیسوی میں شروع ہوگا۔ اگر 2007.057272 کے اعشاریہ کے بعد والے حصے کو 365 سے ضرب دی جائے تو 20.9 حاصل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ یکم محرم 1428 ہجری دنیا کے کچھ حصوں میں 20 جنوری 2007 عیسوی اور کچھ حصوں میں 21 جنوری 2007 عیسوی کو شروع ہوگا۔ یاد رہے کہ چونکہ عیسوی تقویم میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں اس لئے 1500 عیسوی سے پہلے کی تاریخوں سے یکم محرم کا حساب لگانے کے لئے 365 سے ضرب دینے کے بعد تین تفریق کرنا ضروری ہے۔

What is Islamic New Year?
By: S A Sagar
A commemoration marked by Muslims worldwide, the Islamic New Year observance is less than a week away. Also known as Hijri New Year, it falls in the second holiest month in the religion’s calendar following only Ramadan. As well as marking the beginning of Islamic year 1438, the celebration allows Muslims to think about what they want from their own lives. Although schools in the UK do not give time off to Muslim children for the celebration, in their homes they may see feasting and fasting for the event.
The Islamic calendar, also known as the Hijri calendar, is a lunar calendar. It is based on the Qur’an and is the official calendar in many Gulf countries. The Islamic calendar months start when the lunar crescent is first seen by human eyes after a new moon, so reliable Islamic calendars cannot be printed in advance. There are 12 months that comprise the Islamic calendar, with one of the most important months being Ramadan. The years on an Islamic calendar are counted since the Hijra, or Mohammed’s emigration to Medina in 622 AD. Year 1 started on July 16th, 622. Many countries relies on a visual sighting of the crescent moon for religious purposes. For civil purposes, they base their calendar on a mathematically-calculated astronomical moon. Other Muslim countries only use the Islamic calendar for religious purposes, and for all other purposes turn to the Gregorian calendar. It is used to date events in many Muslim countries, concurrently with the Gregorian calendar, and used by Muslims everywhere to determine the proper days on which to observe the annual fasting, to attend Hajj, and to celebrate other Islamic holidays and festivals. The first year was the Islamic year beginning in AD 622 during which the emigration of Muhammad from Mecca to Medina, known as the Hijra, occurred. Each numbered year is designated either “H” for Hijra or “AH” for the Latin Anno Hegirae, “in the year of the Hijra”; hence, Muslims typically call their calendar the Hijri calendar. The current Islamic year is 1437 AH. In the Gregorian calendar, 1437 AH runs from approximately 14 October 2015 to 2 October 2016.
Months
Four of the twelve Hijri months are considered sacred: Rajab (7), and the three consecutive months of Dhu al-Qa‘dah (11), Dhu al-?ijjah (12) and Mu?arram (1). Because the lunar calendar lags behind the solar calendar by about ten days every year, months of the Islamic calendar fall in different parts of the Gregorian calendar each year. The cycle repeats every 33 years.
Length of months
Each month of the Islamic calendar commences on the birth of the new lunar cycle. Traditionally this is based on actual observation of the crescent marking the end of the previous lunar cycle and hence the previous month, thereby beginning the new month. Consequently, each month can have 29 or 30 days depending on the visibility of the moon, astronomical positioning of the earth and weather conditions. However, certain sects and groups, most notably Dawoodi Bohra Muslims and Shia Ismaili Muslims, use a tabular Islamic calendar (see section below) in which odd-numbered months have thirty days (and also the twelfth month in a leap year) and even months have 29.
Days of the week
In Arabic, the “first day” of the week corresponds with Sunday of the planetary week. The Islamic weekdays, like those in the Hebrew and Bahá’í calendars, begin at sunset. The Christian liturgical day, kept in monasteries, begins with vespers (see vesper), which is evening, in line with the other Abrahamic traditions. Christian and planetary weekdays begin at the following midnight. Muslims gather for worship at a mosque at noon on “gathering day”, Yawm al-Jum‘ah, yawm meaning “day”, which corresponds with Friday. Thus “gathering day” is often regarded as the weekly day of rest. This is frequently made official, with many Muslim countries adopting Friday and Saturday; e.g., Egypt, Saudi Arabia or Thursday and Friday as official weekends, during which offices are closed; other countries; e.g., Iran, choose to make Friday alone a day of rest. A few others; e.g., Turkey, Pakistan, Morocco have adopted the Saturday-Sunday weekend while making Friday a working day with a long midday break to allow time off for worship.
Converting Hijri to Gregorian date or vice versa
An example calculation: What is the civil date and year AH of the first day of the first month in the year AD 20875
We first find the Muslim month number corresponding to the first month of the Jewish year which begins in AD20874. Dividing 20874 by 19 gives quotient 1098 and remainder 12. Dividing 2026 by 19 gives quotient 106 and remainder 12. 2026 is chosen because it gives the same remainder on division by 19 as 20874. The two years are therefore (1098–106)=992×19 years apart. The Muslim month number corresponding to the first Jewish month is therefore 992×7=6944 higher than in 2026. To convert into years and months divide by twelve – 6944/12=578 years and 8 months. Adding, we get 1447y 10m + 20874y – 2026y + 578y 8m = 20874y 6m. Therefore, the first month of the Jewish year beginning in AD20874 corresponds to the sixth month of the Muslim year AH20874. The worked example in Conversion between Jewish and civil dates, shows that the civil date of the first day of this month (ignoring the displacements) is Friday, 14 June. The year AH20875 will therefore begin seven months later, on the first day of the eighth Jewish month, which the worked example shows to be 7 January, AD20875 (again ignoring the displacements). The date given by this method, being calculated, may differ by a day from the actual date, which is determined by observation. A reading of the section which follows will show that the year AH20875 is wholly contained within the year AD20875, also that in the Gregorian calendar this correspondence will occur one year earlier. The reason for the discrepancy is that the Gregorian year (like the Julian) is slightly too long, so the Gregorian date for a given AH date will be earlier and the Muslim calendar catches up sooner.

011016 kisey kehtey hain hijri calaender by s a sagar

ہندوستان میں مسلم دور حکومت

ایس اے ساگر
تاریخ پر نظر رکھنے والوں کی تحریر کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ  روز قیامت تک انسان کے لیے مکمل دین یعنی دین اسلام کا ظھور تو جزیرہ نما عرب میں ہوا مگر اس کے پیروکاروں  اور مبلغین نے اس کو تمام نوع انسانی تک پہنچانے  کے لیے دنیا کے ہر کونے کا رخ کیا۔ اسلام نے عربوں کے رہن سہن اور اخلاق و اطوار کو بدل کر رکھ دیا تھا اور عرب تاجر دنیا کے جس کونے میں بھی جاتے وہاں کے باشندے ان تاجروں کے حسن سلوک سے متاثر ہوۓ بغیر نہیں رہ سکتے تھے ۔برصغیر  ہند پاک میں بھی اسلام کا آغاز عرب تاجروں سے ہوا ۔ ان تاجروں سے متاثر ہو کر پہلے ساحل مالابار کی ریاست کدنگانور کے حکمران راجہ سامری نے اور بعد میں کالی کٹ کی بندرگاہ کے حکمران راجہ زمورن نے اسلام قبول کیا ۔ جب ان حکمرانوں نے اسلام قبول کیا تو ان کی رعایا بھی اپنے حاکموں کی  تقلید کرتے ہو ۓ مشرف بہ اسلام ہو گئی ۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ  چند سال سے فرقہ پرستوں نے ہندوستان سے اسلام اوراس کے پیروکار کی بیخ کرنے میں یہود و نصاریٰ کی پوری پوری نیابت اختیار کررکھی ہے۔ مسلم نسل کشی کا ننگا ناچ، اسی طرح کبھی مسلمانوں کی پرسنل لا میں مداخلت، کبھی دینی مدارس کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینا…مسلم حکمرانوں خاص طور پر حضرت عالمگیر رحمہ اللہ کی جانب سے لوگوں میں اس قدر پروپیگنڈہ کرنا کہ غیر تو غیر اپنے بھی اسی پرفریب سیلاب میں بہہ پڑیں…لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی جنم لینے لگا کہ آیا ہندوستان میں مسلمانوں کا ورود باعث رحمت ہے یا زحمت؟ متعصب مورخین کی دوغلی پالیسی کے علی الرغم اکثر لوگوں کا زاویہٴ فہم اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ مسلم حکمراں نے ہندو پر تشدد نیز ان کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کی ہے، اور مذہبی آزادی سلب کی تھی؛ لیکن روشن سورج کو جھٹلانے پر تاریکی ہرگز طاری نہیں ہوسکتی۔

ورود اسلام سے قبل ہندوستان کا مذہب

ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے کی حالت کاسرسری جائزہ بھی ناگزیر ہے۔ ہندوستان میں اسلام سے پہلے بدھ مذہب کے پیروکار تھے، اور بہت ہی قلت کے ساتھ برہمنی مذہب کا بھی پتہ چلتا ہے؛ لیکن اتنی بات پایہٴ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اس وقت آرین مذہب کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی؛ بلکہ بدھسٹ کا اپنی خیرات تقسیم کرتے وقت جہاں دیگر مستحقین لائن میں ہوتے تھے وہاں برہمنوں کی قطار بھی ہوتی تھی (مختصر تاریخ ہند ۱/۱۱۷-۱۱۸، از مسٹر ہنٹر) لیکن اس کے باوجود برہمن ”بدھ“ مذہب کو ختم کرکے آرین مذہب قائم کرنا چاہتے تھے۔ مورخ اسلام اکبرشاہ خاں رحمہ اللہ کے حوالے سے چین کے مشہور عالم ”ہیونگ شیانگ“ نے ہندوستان کی سیاحت میں پندرہ سال ۶۳۰-۶۴۵/) تک گزارے ہیں، اتنی ہی مدت میں ہندوستان کے چپہ چپہ کی سیر کرلی، اور ہرمقامات پر اپنے ماننے والوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ چناں چہ دوران سفر کئی جگہ ڈاکوؤں کے پنجے میں گرفتاری کا ذکر بھی کرتا ہے، اور ہمیشہ ان (لٹیروں) کو کافر اور بے دین بتاتا ہے حالانکہ وہ برہمنی مذہب کے پیروکار اور بدھ کے مخالف تھے۔ (آئینہ حقیقت نما،ص:۸۴)

اسلام سے پہلے ہندوستان کی مذہبی حیثیت

ہندوستان میں بدھ مذہب کو راجا ”اشوک“ کے زمانے میں کافی ترقی ملی؛ لیکن اس کے بعد اس کے شہنشاہی ٹکڑوں میں منقسم ہوگئی جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ بدھ کی اصل تعلیمات مسخ ہوگئیں اور عبادت و اخلاق کی بنیاد کھوکھلی ہوکر رہ گئی کیوں کہ اشوک کے عہد کو ۹/سوبرس اور گوتم بدھ کے زمانے کو تقریباً ۱۲/سو برس ہوچکے تھے، (آئینہ حقیقت نما،ص:۸۵-۸۶) چناں چہ پورا معاشرہ بت پرستی و بد عقیدگی اور شدت پسندی کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ اسی زمانے کے احوال کی نقاب کشائی اکبر شاہ اس طرح کرتے ہیں کہ : ”یہاں (سندھ) میں عام طور پر بت پرستی رائج تھی، مجرموں کی شناخت کے لیے ان کو جلتی ہوئی آگ میں گذارنے کا عام رواج تھا، اگر آگ میں جل گیا تو مجرم اور بچ گیا تو بے گناہ تھا۔“

پھر مزید کچھ آگے فرماتے ہیں کہ: جادو کا عام طور پر رواج تھا، غیب کی باتیں اور شگون کی تاثیرات بتانے والوں کی بڑی گرم بازاری تھی، محرمات ابدی کے ساتھ شادیاں کرلینے میں تامل نہ تھا، چناں چہ راجا داہر نے اپنی حقیقی بہن کے ساتھ پنڈتوں کی ایماء سے شادی کی تھی، راہزنی اکثر لوگوں کا پیشہ تھا، ذات باری تعالیٰ کا تصور معدوم ہوکر اعلیٰ و ادنیٰ پتھر کی مورتوں اور بتوں کو حاجت روا سمجھتے تھے۔“ (آئینہ حقیقت نما،ص:۱۷۴-۱۷۵)

اسی دور کا تذکرہ کرتے ہوئے علی میاں ندوی رحمہ اللہ ”منو شاستر“ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ: ”اس وقت عام طور پر ہندو مذہب نت نئے دیوتاؤں یہاں تک کہ آلہٴ تناسل تک کا پوجا جانا بھی بڑی اہمیت رکھتا تھا (اورآج بھی یہ طریقہ ہندوؤں میں رائج ہے، لاحول ولا قوة الا باللہ)“ طبقہ واریت بے انتہا تھی یہاں تک کہ ایک قوم ”شودر“ نامی ہے جس کے متعلق منوشاستر،ص:۶ پر ہے: ”اگر کوئی شودر کسی برہمن کو ہاتھ لگائے یا گالی دے تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے، اگر اس کا دعویٰ کرے کہ اس (کسی برہمن) کو وہ تعلیم دے سکتا ہے تو کھولتا ہوا تیل اس کو پلایا جائے، کتے، بلی، مینڈک، چھپکلی، کوے، الو اور ”شودر“ کے مارنے کا کفارہ برابر ہے۔“ یعنی اگر برہمن کا کوئی شخص دوسری ذات والے کو قتل کردے تو فقط اس کی اتنی سی سزا کہ اس کا سرمنڈوادیا جائے اوراس کے برعکس دوسری قوم کے لوگ برہمن کے سامنے لب کشائی بھی کریں تو ان کی جان کے لالے پڑجائیں۔ یہ تھی ہندی مذہب کی ادنیٰ جھلک۔

عرب وہند کے تعلقات کا پس منظر

بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے ہندوستان کے مختلف قبائل: زط (جاٹ)، مید، سیابچہ یا سیابجہ، احامرہ، اساورہ، بیاسرہ اور تکرّی (ٹھاکر) کے لوگوں کا وجود بحرین، بصرہ، مکہ اور مدینہ میں ملتا ہے۔ چناں چہ ۱۰ ہجری میں نجران سے بنوحارث بن کعب کے مسلمانوں کا وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا: ”یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانی معلوم ہوتے ہیں“ (تاریخ طبری ۳/۱۵۶، بحوالہ برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش از محمد اسحق بھٹی)

مزید اسحق بھٹی اپنی مذکورہ کتاب میں فرماتے ہیں: ”کتب تاریخ و جغرافیہ سے واضح ہوتا ہے کہ جاٹ برصغیر سے ایران گئے اور وہاں کے مختلف بلاد و قصبات میںآ باد ہوئے اور پھر ایران سے عرب پہنچے اور عرب کے کئی علاقوں میں سکونت اختیار کرلی“ (ایضاً،ص:۱۸) نیز تاریخ میں ان قبائل کا۔ بزمانہٴ خلافت شیخین (حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مسلمان ہونے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ (ایضاً،ص:۲۵) خلاصہ یہ کہ یہ قبائل عرب کے ساتھ گھل مل گئے ان قبائل میں سے بعضوں کے بہت سے رشتہ دار تھانہ، بھڑوچ اور اس نواح کے مختلف مقامات میں (جوبحرہند کے ساحل پر تھے) آباد تھے۔

بالآخر عرب و ہند کے درمیان شدہ شدہ مراسم بڑھتے گئے یہاں تک کہ برصغیر (متحدہ ہند) اور عرب کا باہم شادی و بیاہ کا سلسلہ بھی چل پڑا، اس ہم آہنگی کی سب سے اہم کڑی عرب و ہند کے تجارتی تعلقات تھے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے نت نئے اشیائے خوردونوش وغیرہ: ناریل، لونگ، صندل، روئی کے مخملی کپڑے، سندھی مرغی، تلواریں، چاول اور گیہوں اور دیگر اشیاء عرب کی منڈیوں میں جاتی تھیں۔ (ایضاً،ص:۲۹) اس واقعے کی تصریح ایک مصری مورخ یوں کرتا ہے: جنوبی عرب سے آنے والے تجارتی قافلوں کی ایک منزل مکہ مکرمہ تھا، یہ قافلے ہندوستان اور یمن کا تجارتی سامان شام اور مصر کو لے جاتے تھے، اثنائے سفر میں یہ لوگ مکہ مکرمہ میں قیام کرتے اور وہاں کے مشہور کنوئیں”زمزم“ سے سیراب ہوتے اوراگلے دن کے لیے بقدر ضرورت زمزم کا پانی ساتھ لے جاتے تھے۔“ (عرب و ہند عہد رسالت میں بحوالہ الجمل فی تاریخ الادب العربی،ص:۲۷)

ہند میں طلوع اسلام

یوں تو لوگوں میں مشہور ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی روشنی بزورِ تیروشمشیر سب سے پہلے سرزمین سندھ پر پڑی؛ لیکن یہ واقعہ ۹۳ ہجری کا ہے جب کہ اس سے بہت پہلے بعہد فاروقی ۱۵ھ ہی میں مالا بار، اور سراندیپ کے علاقوں میں اسلام کی خوشبو پھیلنا شروع ہوگئی تھی اور سلسلہ وار عہد عثمانیہ سے خلافت امیہ تک یکے بعد دیگرے بہت سے حضرات رسالت و توحید کی روشنی جنوبی ہند میں لاکر اس علاقے کے گوشہ گوشہ کو روشن کرنے میں ہمہ تن منہمک تھے، اور اسلام کسی خلل و رکاوٹ کے بغیر پھیل رہا تھا اور لوگوں کے ذہن ودماغ کو مسخر کیے جارہا تھا؛ یہی وجہ ہے کہ مالابار کا راجا ”زمورن یا سامری“ نے معجزہ شقِ قمر کا چشم دید مشاہدہ کیا اور تاریخ و دن محفوظ کرکے تحقیق شروع کردی ․․․ معلوم ہوا کہ عرب میں ایک پیغمبر پیدا ہوئے ہیں انھی کا یہ معجزہ تھا۔ (آئینہ حقیقت نما،ص:۷۱-۷۲، از مورخ اسلام اکبرشاہ خاں نجیب آبادی)
الحاصل راجا نے بسروچشم اسلام قبول کرلیا اور اپنی سلطنت ترک کرکے سراپا ہدایت و رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ اشتیاق میں ان کے کوچے کی طرف چل پڑا؛ لیکن وقت کا – سوائے خدا کسی کو علم نہیں- قبل اس سے کہ وہ اپنی تشنگی بجھاتا دل کی ارماں دل ہی میں لیے ہوئے مالکِ حقیقی سے جاملا۔ راجہ داہر کے سیاہ کرتوت اوراس کے ہمراہیوں کی دراندازی کے محمد بن قاسم کا ہندوستان

مسلم دور حکومت
تاہم ہندی سے ترجمہ کے حوالہ سے شہباز بخت رقمطراز ہیں کہ آٹھویں صدی عیسوی کے دوران ہی محمد بن قاسم آئے۔ آپ نے ہندوستان کی سر زمین پر مسلم حکمرانی کا پرچم لہرا دیا تھا.

1. عامر نصیرالدین سبكتگين،
حکومت 13 سال (984-997ء)
2. محمود غزنوی،
حکومت 32 سال (  998 تا 1030 ء)
3. سلطان شہاب الدین غوری،
حکومت 31 سال (1175-1206 ء)
4. سلطان قطب الدین ایبک،
حکومت 4 سال (1206-1210 ء)
—————————————
غلام خانوادے سے
5. سلطان شمس الدین التمش،
حکومت 24 سال (1211-1235 ء)
6. رضیہ سلطان (سلطان شمس الدین التمش کی بیٹی) (1236-1246 ء)
7. سلطان نصیرالدین محمود،
حکومت 20 سال (1246-1266 ء)
8. سلطان غياث الدين بلبن،
حکومت 21 سال (1266-1287ء)
—————————————
خلجی خانوادہ
9. سلطان جلال الدین خلجی،
حکومت 6 سال
(13 جون1290 تا 20 جولائی 1296)
10. سلطان علاؤالدین خلجی،
حکومت 20 سال (1296-1316 ء)
—————————————
تغلق خانوادہ
11. سلطان غیاث الدین تغلق،
حکومت 4 سال (1321-1325 ء)
12. سلطان محمد شاہ تغلق،
حکومت 27 سال (1352- 1325 ء)
13. سلطان فیروز شاہ تغلق،
حکومت 35 سال (1352-1387 ء)
—————————————
سید خانوادہ
14. خضر خاں،
حکومت 7 سال (1414-1421ء)
15. مبارک شاہ،
حکومت 13 سال (1421-1434ء)
16. محمد شاہ،
حکومت 11 سال (1434-1445ء)
17. المشاه شاہ،
حکومت 6 سال (1445-1451ء)
—————————————
لودھی خانوادہ
18. سلطان بحلول لودھی،
حکومت 37 سال (1451-1488ء)
19. سلطان سکندر لودھی،
حکومت 29 سال (1488-1517 ء)
20. سلطان ابراہیم لودھی،
حکومت 9 سال (1517-1526ء)
—————————————
مغل خانوادہ
21. شہنشاه *ظہیر الدین بابر،
حکومت 4 سال (1526-1530)
22. شہنشاه ہمایوں،
حکومت (پہلا دور ) 10 سال (1530-1540ء)
—————————————
سوری خانوادہ
23. شیر شاہ سوری،
حکومت 5 سال (1540-1545)
24. اسلام شاہ سوری،
حکومت 8 سال (1545-1553)
25. فیروز شاہ سوری، (1553)
26. محمد شاہ عادل، (1553)
27. ابراہیم شاہ سوری،
حکومت 3 سال (1553-1555)
28. سکندر شاہ سوری، (1555)
29. عادل شاہ سوری، (1555)
—————————————
مغلوں کی واپسی
22. شہنشاہ ہمایوں،
حکومت ( دوسرا دور )
1 سال (1555-1156ء)
30. شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر،
حکومت 49 سال (1556-1605ء)
31. شہنشاہ نورالدین جہانگیر،
حکومت 22 سال (1605-1627)
32. شہنشاہ شاہجہاں،
حکومت 31 سال (1627-1658)
33. اورنگزیب عالمگیر (رحمہ اللہ)
حکومت 49 سال (1658-1707)
34. محمد احمد شاہ،
حکومت صرف کچھ وقت تک کے لئے،
14 مارچ، 1707 سے 8 جون، 1707 تک.
35. بہادر شاہ الاول، حکومت 5 سال (1707-1712)
36. جہاں دار شاہ،
حکومت 1 سال (1712-1713)
37. فرخ شیر،
حکومت 6 سال (1713-1719)
38. رفیع الدین،
حکومت صرف کچھ مہینوں کے کیلئے،
28 فروری 1719 تا 6 جون 1719 تک
39. شاہجہاں
حکومت صرف کچھ مہینوں کے کیلئے،
6 جون 1719-تا 19 ستمبر 1719
40. محمد شاہ،
حکومت 29 سال (1719-1748)
41. احمد شاہ،
حکومت 6 سال (1748-1754)
42. عالمگیر ثانی عرف عالمگیر، حکومت 5 سال (1754-1759)
43. شاہ عالم،
حکومت 47 سال (1759-1806)
44. جہاں شاہ،
حکومت صرف کچھ وقت کے لئے،
31 جولائی 1788-16 اکتوبر 1788
45. اکبر ثانی،
حکومت 31 سال (1806-1837)
46. بہادر شاہ ظفر،
حکومت 20 سال 42 دن (1837-1857)
—————————————
710 سے 1857 کا وقت وقفہ 1،147 سال ہوتا ہے، اس حساب سے 1،147 سال ہندوستان کی تاریخ کا باب مسلم حکومتوں کے رنگے ہوئے میں رنگا ہوا ہے.
1857 سے 2016 تک، مطلب کے تقریبا 159 سال ہو گئے لیکن پھر کوئی مسلم ہندوستان کا حکمران نہیں بن سکا. ان 159 سال میں سے تو 90 سال (1857-1947) تک تو ہم انگریزوں کے غلام رہے،
لیکن 1947 سے 2016 تک 69 سال آزاد ہوئے ہو گئے لیکن ہم مسلمانوں کی حالات بدتر ہو گئی ہے. کل ہم نے ہزاروں سال حکومت کی اور آج ہم کہہ رہے ہیں کہ محکومیت کی وجہ فرقہ پرستی اور علم کی کمی ہیں…

مرودوں اور عورتوں کے بٹن مخالف سمت کیوں؟Why Are Men’s and Women’s Buttons on Opposite Sides?

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ مردوں اور خواتین کی قمیضوں یا جیکٹوں وغیرہ کے بٹن مخالف سمتوں میں کیوں ہوتے ہیں؟ بہت سے ذہنوں میں سوال ہیں جس کا  فیشن اور ملبوسات کے تاریخ دانوں نے اس کا دلچسپ جواب دیا ہے۔
زنانہ ملبوسات بنانے والی امریکی کمپنی کی سربراہ میلانی مور نے اس کو بڑی تاریخی وجہ قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ تیرہویں صدی عیسوی میں جب بٹن نئے نئے ایجاد ہوئے تھے تو وہ بہت مہنگے تھے اور اس مہنگی ایجادات سے صرف امیر خواتین ہی مستفید ہوتی تھیں جن کے ہاں لباس پہنانے کے لئے علیحدہ خادمائیں ہوا کرتی تھیں۔ اب چونکہ زیادہ تر لوگ سیدھے ہاتھ سے کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں تو ان خادماؤں کی سہولت کے لئے خواتین کی قمیضوں میں الٹے ہاتھ پر بٹن لگائے جانے لگے جو رفتہ رفتہ ایک رواج بن گیا۔
البتہ، مردوں کی قمیضوں میں بٹنوں کے سیدھے ہاتھ پر ہونے کا معاملہ کچھ مبہم ہے کیونکہ اس سے متعلق ایک سے زائد مفروضات مدمقابل ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں فیشن کی تاریخ نگار چیپن کلوئی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ مردانہ قمیضوں اور جیکٹوں میں بٹن لگانے کا سلسلہ (خواتین کے) بہت بعد میں جاکر شروع ہوا۔ مزید یہ کہ ایک عمومی اصول کے طور پر ’’مردانہ لباس کے بیشتر اجزاء کا گہرا تعلق فوج سے رہا ہے اور شاید مردانہ قمیضوں میں بٹن لگانے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب نسبتاً چھوٹی بندوقوں کا استعمال شروع ہوچکا تھا۔‘‘
قرینِ قیاس ہے کہ قمیض یا جیکٹ کے اندر رکھی گئی بندوق نکالنے میں زیادہ سے زیادہ سہولت نے اس معاملے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہوگا۔ مردانہ قمیض یا جیکٹ میں بٹن سیدھے ہاتھ پر لگے ہونے کے باعث بندوق زیادہ تیزی سے نکالی جاسکتی تھی۔ اسی فوجی ضرورت نے مردانہ قمیضوں میں بٹنوں کے سیدھے ہاتھ پر ہونے کا سلسلہ شروع کیا جو تادم تحریر اسی طرح جاری ہے۔
Why Are Men’s and Women’s Buttons on Opposite Sides?
It seems a little odd and it’s not something that anyone but costumers, cross-dressers, and tailors have occasion to notice much but men’s shirts and women’s blouses button from different directions.
This might make sense if most women were left-handed and most men were right-handed, but as it is, most people are right-handed . So what’s the deal?
The reason has its roots in both custom and fashion. In the last few centuries of modern dress, both men and women wore more clothes than they do today (which is probably just as well, as they also bathed a lot less than they do today).
Depending on the era, men might wear waistcoats, pantaloons, gaiters and wool jackets. But women’s clothing was far more elaborate, and could consist of a dozen or more garments including petticoats, bloomers, gowns, corsets and bustles.
Thus, especially in middle- and upper-class society, men generally dressed themselves, whereas women did not. Instead, maids and servants might spend an hour or more dressing the lady of the house. Clothiers soon realized that reversing the buttons on women’s clothes made the job faster and easier for all involved. Because men were not dressed by servants, there was no need to reverse the buttons on their garments, and thus a custom was born.
Why has this tradition carried into the modern era, when women can dress themselves, thank you very much? For the same reason that most people still type on the QWERTY keyboard : it’s customary. There’s no real reason the buttons couldn’t be switched, it’s just that nobody has bothered to change a tradition that few people notice or complain about in the first place.

قرآن کریم؛ ایک زندہ معجزہ

1973 کے دوران روس میں کمیونزم کی طوطی بولتی تھی  بلکہ دنیا تو یہ کہہ رہی تھی کہ بس اب پورا ایشیا سرخ ہوجائے گا. ان دنوں میں ہمارے ایک دوست  ماسکو ٹریننگ کے لئے چلے گئے  وہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن میں نے دوستوں سے کہا کہ،
چلو جمعہ ادا کرنے کی تیاری کرتے ہیں.
تو انھوں نے کہا کہ،
یہاں مسجدوں کو گودام بنا دیا گیا ہے. ایک دو مساجد کو سیاحوں کا قیام گاہ بنا دیا گیا ہے صرف دو ہی مسجد اس شہر میں بچی ہیں جو کھبی بند اور کھبی کھلی ہوتی ہیں…
میں نے کہا،
آپ مجھے مساجد کا پتہ بتا دیں میں وہیں چلا جاتا ہوں جمعہ ادا کرنے ۔
پتہ لیکر میں مسجد تک پہنچا تو مسجد بند تھی، مسجد کے پڑوس میں ہی ایک شخص کے پاس مسجد کی چابی تھی. میں نے اس آدمی کو کہا کہ دروازہ کھول دو مسجد کا ، مجھے نماز پڑھنی ہے ،
اس نے کہا دروازہ تو میں کھول دونگا لیکن اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچا تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا ، میں نے کہا،
دیکھیں جناب میں روس کے ماسکو میں بھی مسلمان ہی ہوں، اپنے وطن میں بھی نماز ادا کرتا تھا اور روس کے ماسکو میں بھی نماز ادا کروں گا چاہے کچھ بھی ہوجائے ۔
اس نے مسجد کا دروازہ کھولا تو اندر مسجد کا ماحول بہت خراب تھا میں نے جلدی جلدی صفائی کی اور مسجد کی حالت اچھی کرنے کی کوشش کرنے لگا. کام سے فارغ ہونے کے بعد میں نے بلند آواز سے آذان دی ۔۔۔۔۔
آذان کی آواز سن کر بوڑھے، بچے، مرد، عورت، جوان سب مسجد کے دروازے پہ جمع ہوگئے کہ یہ کون ہے جس نے موت کو آواز دی ۔۔۔۔ لیکن مسجد کے اندر کوئی بھی نہیں آیا۔۔۔۔
خیر میں نے جمعہ تو ادا نہیں کیا کیونکہ اکیلا ہی تھا بس ظہر کی نماز ادا کی اور مسجد سے باہر آگیا  جب میں جانے لگا تو لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کہ میں نماز ادا کرکے باہر نہیں نکلا بلکہ دنیا کا کوئی نرالا کام متعارف کرواکے  مسجد سے نکلا ہوں،
ایک بچہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ،
آپ ہمارے گھر چاۓ پینے آئیے ۔ اس کے لہجے میں خلوص ایسا تھا کہ میں انکار نہ کرسکا. میں اس کے ساتھ گیا تو گھر میں طرح طرح کے پکوان بن چکے تھے اور میرے آنے پہ سب بہت خوش دکھائی دے رہے تھے.
میں نے کھانا کھایا، چائے پی تو ایک بچہ ساتھ بیٹھا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا،
آپکو قرآن پاک پڑھنا آتا ہے؟
بچے نے کہا،
جی بالکل  قرآن پاک تو ہم سب کو آتا ہے ،
میں نے جیب سے قرآن کا چھوٹا نسحہ نکالا اور کہا،
یہ پڑھ کر سناو مجھے ۔۔۔
بچے نے قرآن کو دیکھا اور مجھے دیکھا، پھر قرآن کو دیکھا اور ماں باپ کو دیکھ کر دروازے کو دیکھا پھر مجھے دیکھا۔
میں نے سوچا اس کو قرآن پڑھنا نہیں آتا لیکن اس نے کہا کیوں کہ اس کو قرآن پڑھنا آتا ہے ۔ میں نے کہا بیٹا یہ دیکھو قرآن کی اس آیت پہ انگلی،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ
رکھی تو وہ فر فر پڑھنے لگا، قرآن کو دیکھے بغیر ہی ۔۔۔۔ مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا کہ یہ تو قرآن کو دیکھے بنا ہی پڑھنے لگا  میں نے اسکے والدین سے کہا.
” حضرات یہ کیا معاملہ ہے ؟
انھوں نے مسکرا کر کہا،
” دراصل ہمارے پاس قرآن پاک موجود نہیں کسی کے گھر سے قرآن پاک کے آیت کا ایک ٹکڑا بھی مل جائے تو اس تمام حاندان کو پھانسی کی سزا دے دی جاتی ھے اس وجہ سے ہم لوگ قرآن پاک نہیں رکھتے گھروں میں.”
” تو پھر اس بچے کو قرآن کس نے سکھایا کیونکہ قرآن پاک تو کسی کے پاس ہے ہی نہیں؟”
میں نے مزید حیران ہوکر کہا،
” ہمارے پاس قرآن کے کئی حفاظ ہیں، کوئی درزی ہے، کوئی دکاندار کوئی سبزی فروش، کوئی کسان ہم ان کے پاس اپنے بچے بھیج دیتے ہیں محنت مزدوری کے بہانے ۔۔۔۔ وہ ان کو الحمد اللہ سے لیکر والناس تک زبانی قرآن پڑھاتے ہیں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ حافظ قرآن بن جاتے ہیں، کسی کے پاس قرآن کا نسحہ ہے ہی نہیں. اس لئے ہماری نئی نسل کو ناظرہ نہیں آتا بلکہ اس وقت ہماری گلیوں میں آپ کو جتنے بھی بچے دکھائی دے رہے ہیں یہ سب کے سب حافظ قرآن ہیں ۔ یہی وجہ ہے جب آپ نے اس بچے کے سامنے قرآن رکھا تو اس کو پڑھنا نہیں آیا ناظرہ کرکے،  لیکن جب آپ نے آیت سنائی تو وہ فر فر پڑھنے لگا اگر آپ نہ روکتے تو یہ سارا قرآن ہی پڑھ کر سنا دیتا ۔
وہ نوجوان کہتا ہے کہ میں نے قرآن کا ایک نہیں کئی ہزار معجزے اس دن دیکھے، جس معاشرے میں قرآن پہ پابندی لگا دی گئی تھی رکھنے پہ ، اس معاشرے کے ہر بچے بوڑھے مرد عورت کے سینوں میں قرآن حفظ ہوکر رہ گیا تھا.
میں جب باہر نکلا تو کئی سو بچے دیکھے اور ان سے قرآن سننے کی فرمائش کی تو سب نے قرآن سنا دیا ، میں نے کہا،
” لوگو ۔۔۔۔۔! تم نے قرآن رکھنے پہ پابندی لگا دی لیکن جو سینے میں قرآن مجید محفوظ ہے اس پہ پابندی نہ لگا سکے ۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اللہ پاک کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے
إِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ::: بے شک یہ ذِکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ھیں۔

یہ واقعہ حضرت مولانا پیر ذوالفقار صاحب مدظلہ نے بھی لکھا ہے۔

Up ↑