What is Islamic New Year? کسے کہتے ہیں ہجری کلینڈر؟

ایس اے ساگر
 وعن عبد الله بن هشام قال : 
كان أصحاب رسول الله ﷺ – 
يتعلمون هذا الدعاء إذا دخلت السنة أو الشهر : 
” اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان ، والسلامة والإسلام ، ورضوان من الرحمن ، وجوار من الشيطان ” . 
رواه الطبراني في الأوسط ، 
وإسناده حسن .
–  كان أصحابُ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يتعلَّمون هذا الدُّعاءَ إذا دخَلَتِ السَّنَةُ أو الشَّهرُ اللهمَّ أدخِلْه علينا بالأمنِ والإيمانِ والسَّلامةِ والإسلامِ ورِضوانٍ مِنَ الرَّحمنِ وجَوازٍ مِنَ الشَّيطانِ
الراوي:
عبدالله بن هشام 
المحدث:  
الهيثمي       
–   المصدر:  مجمع الزوائد  
–   الصفحة أو الرقم:  10/142خلاصة حكم المحدث:  إسناده حسن‏‏

ہجری سال قمری ہجری تقویم 1437 رخصت پذیر ہے جبکہ 1438 کی آمد آمد ہے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ عام طور پر امت اس کے ماہ و سال سے بعد اختیار کرچکی ہے۔بعض کو تو علم ہی نہیں کہ اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے بعض ممالک میں اسے اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری تقویم سے مراد تواریخ کا حساب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے لگانا ہے۔ اس میں جو مہینے استعمال ہوتے ہیں ان کا استعمال اسلام سے پہلے بھی تھا۔ جس میں سے محرم پہلا مہینہ ہے۔ چونکہ ایک قمری تقویم ہے لہذا اس کا ہر مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع ہوتا ہے۔ویکی پیڈیا کے مطابق سال کا کل دورانیہ 354.367056 دن اور ایک ماہ کا کل دورانیہ 29.530588 دن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کو ہجرت 26 صفر کو ہوئی۔ مگر چونکہ عرب لوگ سال کا آغاز محرم سے کیا کرتے تھے اس لئے اسلامی سال کو ایک ماہ 25 دن پیچھے سے شمارکیا گیا۔ اس لئے پہلی قمری ہجری کی پہلی تاریخ یعنی اول محرم مو ¿رخہ 16 جولائی 622ءکے مطابق ہوئی۔ حسب سابق اس میں بارہ ماہ رکھے گئے۔
1 ۔محرّم یا محرم الحرام
2 ۔صفر یا صفر المظفر
3۔ ربیع الاول
4 ۔ربیع الثانی
5 ۔جمادی الاولی
6 ۔
جمادی الثانیہ
 7 ۔رجب یا رجب المرجب
8 ۔شعبان یا شعبان المعظم
9 ۔رمضان یا رمضان المبارک
10۔ شوال یا شوال المکرم
11 ۔ذوالقعدہ
12 ۔ذوالحجہ

ہر مہینہ انتیس یا تیس دن کا ہوتا ہے۔ جس کے شروع ہونے کا فیصلہ چاند کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ قمری ہجری سال ہر عیسوی سال کی نسبت دس یا گیارہ دن پہلے شروع ہوتا ہے یعنی ہر سال ہجری اور عیسوی سال کا وقفہ کم ہو جاتا ہے۔ اندازا ہے کہ سن 20842 میں ایک ہی قمری ہجری اور عیسوی سال ہوگا۔ ہر 33 یا 34 سال بعد ایسا موقع آتا ہے جب ایک قمری ہجری سال مکمل طور پر ایک عیسوی سال کا اندر ہی رہتا ہے جیسا سن 2008 عیسوی میں۔
عربوں کی اصل تقویم:
اس سلسلہ میں جامعہ بنوریہ عالمیہ، انچارج تخصص فی التفسیر وڈپٹی ایڈیٹر ہفت روزہ اخبارالمدارس سینئر ریسرچ اسکالر مولانا محمد جہان یعقوب رقمطراز ہیں کہ عربوں کی اصل تقویم قمری تقویم تھی، مگر وہ مدینہ منورہ کے پڑوس میں آباد یہودی قبائل کی عبرانی (یہودی) تقویم کے طرز پر اپنے تجارتی اور ثقافتی فائدے کی خاطر خالص قمری کی بجائے قمری شمسی تقویم استعمال کرتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حجة الوداع کے موقع پر اس قمری شمسی تقویم کو ہمیشہ کیلئے منسوخ فرماکر خالص قمری تقویم کو بحال رکھا، جس کا آغاز ہجرت مدینہ کے اہم واقعے سے کیا گیا تھا، لہٰذا یہ تقویم ہجری تقویم کے نام سے موسوم ہوئی۔ اس کی ابتدا خود حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے ہوئی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں سرکاری مراسلات میں ’اسلامی قمری ہجری‘ تاریخ کا اندراج لازمی قرار دیا، یہ ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جوان کی یاد دلاتا رہے گا۔
احکام شرعیہ کا دارومدار:
انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ آج کے مسلمان اور بالخصوص نئی پود کو، جو مستقبل کی معمار و صورت گرہے، اسلامی ہجری تقویم کے مہینوں کے نام تک معلوم نہیں، اگرچہ دفتری ضروریات کے تحت گریگورین (عیسوی) کیلندڑ کا استعمال درست ہے، تاہم اسلامی مہینوں کے ناموں کا جاننا اور ان کی عظمت و فضیلت کا قائل ہونا بھی فرض کفایہ ہے۔ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم میں احکام شرعیہ مثلاً: حج و غیرکا دارومدار قمری تقویم پر ہے۔ روزے قمری مہینے رمضان کے ہیں۔ نزول قرآن بھی رمضان میں ہوا، عورتوں کی عدت، زکوٰة کے لئے سال گزرنے کی شرط وغیرہ سب قمری تقویم کے اعتبار سے ہیں. عیدین یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کا تعلق بھی قمری تقویم سے ہے۔ ناس ہو لارڈ میکالے کے وضع کردہ نظام تعلیم کا، جس نے ہمیں اسلاف کی دوسری زریں روایات کے ساتھ ساتھ اپنی اصل ہجری قمری تقویم بھی بھلادی۔ ہمیں اپنے بچوں کو اہتمام وخصوصیت سے اسلامی سال کے مہینوں کے نام یاد کروانے چاہئیں۔قمری تقویم کی بنیاد زمین کے گرد چاند کی ماہانہ گردش پر ہے اور ہر مہینے کا آغاز نئے چاند سے ہوتاہے۔قمری تقویم میں تاریخ کا آغاز غروب شمس سے ہوتا ہے اور قمری مہینہ کبھی 29 دن کا اور کبھی 30 دن کا ہوتا ہے۔ یوں قمری سال عموما 354 دن اور بعض مرتبہ 355 دن کا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف موجودہ رائج عیسوی تقویم میں آج کل دن کا آغاز رات بارہ بجے سے ہوتا ہے اور اس میں یہ بھی طے ہے کہ ہر سال کون سامہینہ کتنے دنوں کاہوگا، جبکہ فروری کا مہینہ عام طور پر 28 دن کا لیاجاتا ہے اور لیپ یعنی چار پر تقسیم ہونے والا ہر چوتھے سال میں 29 دن کا ہوتا ہے۔ مہینوں کی یہ تعداد خود ساختہ ہے، کسی قاعدہ یا ضابطہ کے تحت نہیں البتہ سب مہینوں کے دنوں میں مجموعی تعداد 365 جبکہ لیپ کے سال میں 366 دن ہوتے ہیں۔
سال کے تمام موسم :
اس کے مقابل قمری تقویم میں ابہام ہے، جس میں کئی مصلحتیں پوشیدہ ہیں، مثلا؛ بعض اہم مواقع پر اس ابہام سے پیدا ہونے والی انتظاری کیفیت یاسسپنس نہایت مسرت افزا ہوتا ہے، اہل اسلام عید الفطرکے ہلال کی امکانی رویت و عدم رویت سے پیدا ہونے والی انتظاری کیفیت میں چاند دیکھنے کی والہانہ کوشش کرتے ہیں۔بچوں، جوانوں ، بوڑھوں ، مردوں اور عورتوں کی چاند دیکھنے کی یہ مسرت آمیز مساعی ایک عجیب سماں پیدا کرتی ہیں۔ اگر عید وغیرہ کا دن پہلے سے ہی سو فیصد یقین کے ساتھ متعین اور مقرر ہوتا تو یقینا ہلال عید کی یہ خوشی نصیب نہ ہوتی۔ قمری مہینوں کی موسموں سے عدم مطابقت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بعض نہایت اہم احکام شرعیہ مثلا؛ صیام رمضان کی تعمیل زندگی بھر میں تمام موسموں میں ممکن ہوجاتی ہے، مثلا؛ ایک شخص بالغ ہونے پر رمضان کے روزے رکھنا شروع کرتا ہے اور پچیس برس روزے رکھنے پر جسمانی صحت کے لحاظ سے روزے رکھنے کے قابل رہتاہے، تو وہ موسم گرما، موسم سرما ،موسم بہار اورموسم خزاں یعنی سال کے تمام موسموں میں روزے رکھنے کی سعادت حاصل کرلیتا ہے۔ اگر اس طرح کے احکام کے لئے شمسی مہینے متعین کئے جاتے تو ساری عمر ایسے احکام کی تعمیل ایک ہی موسم میں ہوتی، بلکہ شمالی نصف کرہ اور جنوبی نصف کرہ کے موسمی تضاد کی وجہ سے بعض علاقوں اور ملکوں کے لوگ موسم گرمامیں اور دوسرے علاقوں کے لوگ موسم سرما میں ان احکام کی تعمیل کے لئے ہمیشہ پابند ہوکر رہ جاتے اور ان احکام کی بجاآوری کے سلسلے میں موسمی تغیرات کا فائدہ نہ اٹھاسکتے، اسلامی تقویم نے ہی یہ بات ممکن بنادی ہے۔ اس کے علاوہ ماہرین نے قمری ہجری تقویم کی بعض دیگر خصوصیات بھی بیان کی ہیں، من جملہ ان میں یہ بھی ہے کہ جب سے سن ہجری کا آغاز ہوا ہے، اس وقت سے لے کر آج تک اس میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، یہ خصوصیت غالباً صرف قمری تقویم ہی کو حاصل ہے۔ سن ہجری میں ہفتے کا آغاز جمعہ کے دن سے ہوتا ہے، جو سیدالایام یعنی تمام دنوں کا سردارہے۔ ہجری تقویم میں شرک ، نجوم پرستی یا بت پرستی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ مہینوں اور دنوں کے ناموں کو دوسری تقاویم کی طرح کسی بادشاہ، سیارے یا دیوی ، دیوتا سے کوئی نسبت نہیں. شرائع سابقہ میں بھی دینی مقاصد کیلئے یہی تقویم مستعمل تھی بعد میں لوگوں نے اس خالص قمری تقویم میں تحریف کرتے ہوئے اسے شمسی یا قمری شمسی تقویم میں بدل ڈالا۔ سال کا آغاز یکم محرم الحرام سے ہوتاہے، اور محرم الحرام کا یہ دن ہمیں ایک عظیم اور لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے کہ اس دن مراد رسول حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ایک بین الاقوامی سازش کے نتیجے میں شہید کردیا گیا تھا، اسی طرح اس مہینے کے ابتدائی دس دن ہمیں اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی فقید المثال قربانی کی یاد دلاتے ہیں کہ دین کی خاطر کیسی کیسی نابغہ روزگار شخصیات کو خاک و خون میں تڑپایا گیا، لہٰذایہ دین جب بھی قربانی کا تقاضا کرے، ان عظیم نفوس قدسیہ کی قربانیوں کو یاد کرکے قربانی کے لئے بصد دل وجان تیار ہوجانا،
کہ دانہ خاک میں مل کر گل وگل زار ہوتا ہے
اہل اسلام کو نئے سال کی مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ ہم یہ پیغام بھی دیناچاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی اصل پہچان یعنی اسلامی ہجری سال کو بالکل نہیں بھلا دینا چاہئے، بلکہ اس کے نام بھی یاد رکھنے چاہئیں اور اسے استعمال بھی کرناچاہئے، کہیں ایسا نہ ہوکہ آئندہ چند سال میں ہماری نئی پود کے ذہنوں سے یہ تصور ہی محو ہوجائے کہ ہم بھی ایک زندہ جاوید تہذیب و تاریخ کے امین ہیں، ہمارا بھی ایک شاندار ماضی ہے، ہمارا بھی ایک تشخص ہے۔
ہجری سے عیسوی تاریخ میں منتقلی:
قمری ہجری سے عیسوی تاریخ میں منتقلی کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ہجری سال کو 0.970224 سے ضرب دیں اور اس میں 621.5774 جمع کر دیں۔ جواب میں اعشاریہ سے پہلے جو حصہ ہے وہ سال کو ظاہر کرے گا۔ اگر اعشاریہ کے بعد والے حصے کو 365 سے ضرب دے دی جائے تو جواب میں ان دنوں کی تعداد آ جائے گی جتنے دنوں کے بعد اس عیسوی سال میں یکم محرم ہوگی۔ یہ اعداد و شمار ایک یا دو دن کے فرق سے معلوم ہوں گے کیونکہ ایک ہی وقت میں دنیا کےمختلف حصوں میں دو مختلف اسلامی تاریخیں ممکن ہیں۔ 0.970224 اصل میں عیسوی سال کے حقیقی دورانیہ کو ہجری سال کے حقیقی دورانیہ پرتقسیم کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر 1428 کو 0.970224 سے ضرب دیں اور اس میں 621.5774 جمع کر دیں تو جواب میں 2007.057272 حاصل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ 1428 ہجری سن 2007 عیسوی میں شروع ہوگا۔ اگر 2007.057272 کے اعشاریہ کے بعد والے حصے کو 365 سے ضرب دی جائے تو 20.9 حاصل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ یکم محرم 1428 ہجری دنیا کے کچھ حصوں میں 20 جنوری 2007 عیسوی اور کچھ حصوں میں 21 جنوری 2007 عیسوی کو شروع ہوگا۔ یاد رہے کہ چونکہ عیسوی تقویم میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں اس لئے 1500 عیسوی سے پہلے کی تاریخوں سے یکم محرم کا حساب لگانے کے لئے 365 سے ضرب دینے کے بعد تین تفریق کرنا ضروری ہے۔

What is Islamic New Year?
By: S A Sagar
A commemoration marked by Muslims worldwide, the Islamic New Year observance is less than a week away. Also known as Hijri New Year, it falls in the second holiest month in the religion’s calendar following only Ramadan. As well as marking the beginning of Islamic year 1438, the celebration allows Muslims to think about what they want from their own lives. Although schools in the UK do not give time off to Muslim children for the celebration, in their homes they may see feasting and fasting for the event.
The Islamic calendar, also known as the Hijri calendar, is a lunar calendar. It is based on the Qur’an and is the official calendar in many Gulf countries. The Islamic calendar months start when the lunar crescent is first seen by human eyes after a new moon, so reliable Islamic calendars cannot be printed in advance. There are 12 months that comprise the Islamic calendar, with one of the most important months being Ramadan. The years on an Islamic calendar are counted since the Hijra, or Mohammed’s emigration to Medina in 622 AD. Year 1 started on July 16th, 622. Many countries relies on a visual sighting of the crescent moon for religious purposes. For civil purposes, they base their calendar on a mathematically-calculated astronomical moon. Other Muslim countries only use the Islamic calendar for religious purposes, and for all other purposes turn to the Gregorian calendar. It is used to date events in many Muslim countries, concurrently with the Gregorian calendar, and used by Muslims everywhere to determine the proper days on which to observe the annual fasting, to attend Hajj, and to celebrate other Islamic holidays and festivals. The first year was the Islamic year beginning in AD 622 during which the emigration of Muhammad from Mecca to Medina, known as the Hijra, occurred. Each numbered year is designated either “H” for Hijra or “AH” for the Latin Anno Hegirae, “in the year of the Hijra”; hence, Muslims typically call their calendar the Hijri calendar. The current Islamic year is 1437 AH. In the Gregorian calendar, 1437 AH runs from approximately 14 October 2015 to 2 October 2016.
Months
Four of the twelve Hijri months are considered sacred: Rajab (7), and the three consecutive months of Dhu al-Qa‘dah (11), Dhu al-?ijjah (12) and Mu?arram (1). Because the lunar calendar lags behind the solar calendar by about ten days every year, months of the Islamic calendar fall in different parts of the Gregorian calendar each year. The cycle repeats every 33 years.
Length of months
Each month of the Islamic calendar commences on the birth of the new lunar cycle. Traditionally this is based on actual observation of the crescent marking the end of the previous lunar cycle and hence the previous month, thereby beginning the new month. Consequently, each month can have 29 or 30 days depending on the visibility of the moon, astronomical positioning of the earth and weather conditions. However, certain sects and groups, most notably Dawoodi Bohra Muslims and Shia Ismaili Muslims, use a tabular Islamic calendar (see section below) in which odd-numbered months have thirty days (and also the twelfth month in a leap year) and even months have 29.
Days of the week
In Arabic, the “first day” of the week corresponds with Sunday of the planetary week. The Islamic weekdays, like those in the Hebrew and Bahá’í calendars, begin at sunset. The Christian liturgical day, kept in monasteries, begins with vespers (see vesper), which is evening, in line with the other Abrahamic traditions. Christian and planetary weekdays begin at the following midnight. Muslims gather for worship at a mosque at noon on “gathering day”, Yawm al-Jum‘ah, yawm meaning “day”, which corresponds with Friday. Thus “gathering day” is often regarded as the weekly day of rest. This is frequently made official, with many Muslim countries adopting Friday and Saturday; e.g., Egypt, Saudi Arabia or Thursday and Friday as official weekends, during which offices are closed; other countries; e.g., Iran, choose to make Friday alone a day of rest. A few others; e.g., Turkey, Pakistan, Morocco have adopted the Saturday-Sunday weekend while making Friday a working day with a long midday break to allow time off for worship.
Converting Hijri to Gregorian date or vice versa
An example calculation: What is the civil date and year AH of the first day of the first month in the year AD 20875
We first find the Muslim month number corresponding to the first month of the Jewish year which begins in AD20874. Dividing 20874 by 19 gives quotient 1098 and remainder 12. Dividing 2026 by 19 gives quotient 106 and remainder 12. 2026 is chosen because it gives the same remainder on division by 19 as 20874. The two years are therefore (1098–106)=992×19 years apart. The Muslim month number corresponding to the first Jewish month is therefore 992×7=6944 higher than in 2026. To convert into years and months divide by twelve – 6944/12=578 years and 8 months. Adding, we get 1447y 10m + 20874y – 2026y + 578y 8m = 20874y 6m. Therefore, the first month of the Jewish year beginning in AD20874 corresponds to the sixth month of the Muslim year AH20874. The worked example in Conversion between Jewish and civil dates, shows that the civil date of the first day of this month (ignoring the displacements) is Friday, 14 June. The year AH20875 will therefore begin seven months later, on the first day of the eighth Jewish month, which the worked example shows to be 7 January, AD20875 (again ignoring the displacements). The date given by this method, being calculated, may differ by a day from the actual date, which is determined by observation. A reading of the section which follows will show that the year AH20875 is wholly contained within the year AD20875, also that in the Gregorian calendar this correspondence will occur one year earlier. The reason for the discrepancy is that the Gregorian year (like the Julian) is slightly too long, so the Gregorian date for a given AH date will be earlier and the Muslim calendar catches up sooner.

011016 kisey kehtey hain hijri calaender by s a sagar

Leave a comment

Up ↑