Money is a matter of….. کاغذی کرنسی کا کھیل

ترقی کی دوڑ میں 133 ویں مقام تک گرنے پر دولت مشترکہ کے ہاتھوں فضیحت سے ابھی ملک سنبھلا بھی نہیں تھا کہ کیجری وال نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ جے این یو میں نجیب کی پراسرار گمشدگی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہہ بیٹھے کہ بی جے پی والے نہ ہندوں کے ہیں نہ مسلمانوں کے بلکہ اپنے اقتدر کی ہوس کے ایسے غلام ہیں کہ اپنے باپ کو بھی بیچ کھائیں۔ اب ایسے مضبوط اشاروں کو بھی عوام نہ سمجھ پائیں تو اس میں بھلا حکومت کا کیا قصور ہے۔ رہ گئے جمن شبراتی، تو ان کا تعلق تو پہلے ہی منڈی، مسجد اور گھر سے کمزور پڑا ہوا ہے۔ بصورت دیگر منڈی کو سمجھنے کی صورت میں معیشت کے ٹھیکیداروں کو سمجھ لیتے اور مسجد سے تعلق کی صورت میں وفاقی حکومت کے کرتا دھرتا وں کی صہیونی لابی سے یگانگت کو کتاب سنت کی روشنی میں پرکھ لیتے۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ گھر اتنا بے قابو ہوچکا ہے کہ عدالتوں میں امت کے ہزاروں عائلی معاملات الجھے پڑے ہیں۔ قائدین کو ذرا بھی شعور ہوتا تو وہ شریعت بچاو کی بجائے شریعت پھیلاو کا نعرہ بلند کررہے ہوتے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سرجیکل اسٹرائک پر خم ٹھونکنے والوں نے کھلم کھلا اسرائیل کی شاگردی کا اعلان نہیں کیا تھا؟ بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس پر کئی روز سے نئے نوٹوں کے بنڈل شائع ہورہے تھے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بھولے بھالے صارفین سمجھ نہیں پائے۔اگر ذرا سا غور کرلیتے تو انھیں 500 اور 1000 روپے کے نئے نوٹوں کو لطیفہ پر مبنی پوسٹ سمجھنے کی بجائے پرانے نوٹوں کی واپسی کا پروانہ گردانتے۔صاف ظاہر کہ اس مخمصہ سے بڑی مچھلیاں تو صاف نکل گئی ہوں گی!
ذہنی غلامی کے شکار:
کاغذی کرنسی میں یو ں بھی ’منی‘ کہلانے کی صلاحیت کہاں ہوتی ہے۔ لین میں ذریعہ بن جاتی ہے، اس کی قیمت کو شمار کیا جاسکتا ہے، صاحب معیار ہے لیکن ذحیرہ نہیں کیا جاسکتا۔ سیدھی سی بات ہے کہ اس کی لگام ہنڈی کی طرز پراجرا کرنے والے کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں ریزرو بینک بھلے ہی کاغذی کرنسی جاری کو جاری کرنے کا مختار ہو، لیکن اس کے گورنر کی ڈور وفاقی حکومت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ یہ امر کسی سے مخفی نہیں ہے کہ صدیوں پہلے صیہونی دجالیوں نے دنیا کی تسخیر کا نہ صرف راز معلوم کر لیاتھا بلکہ کاغذی کرنسی کے کھیل کو بھی سمجھ لیا تھا۔ صدیوں کے تجربوں، اور مشکلات برداشت کرنے کے بعد اس کھیل کو سیکھ لیا تھا۔ صہیونی استعمار نے اسی گر کے ذریعہ دنیا کو مسخر کر لیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ننانوے اعشاریہ نو فیصد غیر یہودی انسان اعشاریہ ایک فیصد یہودیوں کے معاشی، سیاسی، سائنسی سماجی ،ذہنی غلام ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دنیا کی تسخیر کا راز اور گر کیا تھا کہ جس کے ذریعہ یہودیوں نے دنیا کو مسخر کر لیا؟
اقتدار کا نسخہ:
دراصل دجالی یہودیوں نے جان لیا تھا، مان لیا تھا کہ جس کے پاس دولت ہوگی، ہتھیار ہوں گے، معیشت پر قبضہ ہوگا، اس کے پاس اقتدار ہوگا۔ یہودیوں نے دنیا کی تجارت، بینکاری پر اجارہ داری کے ذریعہ دنیا کی دولت کو اپنے دجالی خزانے میں بھر لیا۔قرون وسطیٰ میں بھی یہودی جہاں کہیں، جس کسی ملک کے کسی بھی شہر میں رہے، وہاں کے شاہی دیوانوں پر اپنی دولت کے ذریعہ اثر و رسوخ حاصل کرتے رہے۔ دولتمند یہودی بادشاہوں، وزیروں، امرا کو قرض دیتے تھے۔قرون وسطیٰ کے مسیحی حکمران ان کے محتاج رہتے تھے۔ اس دولتمند یہودیوں کو درباری یہودی Court Jew کہا جا تا تھا۔ سترہویں اٹھارہویں صدی یہودیوں نے عالمی معیشت پر اپنے دجالی پنجے گاڑنے شروع کئے۔ یوروپ کی ایسٹ انڈیا اور ویسٹ انڈیا کمپنیوں نے اس سلسلہ میں اہم کردارادا کیا جن کے کرتا دھرتا یہودی ہی تھے۔ ان کمپنیوں کے ذریعے یہودیوں نے دنیا کی سیاست پر غلبے کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد بینکوں کے نظام کے ذریعہ دنیا بھر کی سیاست کے ادر گرد جال بن لیا۔ تجارت، کثیر الملکی کمپنیوں اور عالمی و قومی بینکوں کے دجالی نظام کے ذریعہ اقوام عالم غلام بنتی چلی گئیں۔
بینکوں کا مکڑ جال:
آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ دور حاضر کے وہ ادارے ہیں کہ جس کے ذریعہ دنیا کی سیاست اور معیشت پر یہودیوں نے پس پردہ کنٹرول حاصل کیا ہوا ہے۔متعدد ممالک کے بدعنوان، عیش پرست حکمرانوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس اپنے عوام کو گروی رکھا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ایسے ممالک کی پالیسیوں کو اپنی مرضی کے مطابق طے کرواتے ہیں جبکہ اس سے انحراف کرنے والوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی جاتی ہے۔ جب تک ان دجالی مالیاتی اداروں سے آزادی نصیب نہیں ہوگی، اس وقت تک دنیا کے کسی بھی خطہ میں بدعنوانی، ناانصافی اور مظالم کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔پتہ نہیں وہ وقت کب آئے گا جب مظلوم اقوام آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی سے نجات حاصل کر نے کے لئے جامع انقلابی اقدامات کی طرف متوجہ ہوں گی۔ 
کالی دولت پر شکنجہ:
فی الحال تو عوام الناس کو گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، افواہوں پر توجہ نہ دیں، آپ کے پیسے بیکار نہیں ہوں گے، گڑ بڑ والوں کی شامت آئی ہے جبکہ صبر اور اطمینان سے کام لینے والوں کے درجات بلند ہوں گے، کچھ دنوں خرچ پر توجہ دیں، ادھر ادھر پیسے رکھنے والے پریشان ہیں، آپ ہم کیوں پریشان ہوں؟ عنوان قائم کیا گیا ہے کہ کالے دھن کے مسئلہ پر قابو پانے کے لئے محکومت نے آٹھ اور نو نومبر کی درمیانی رات سے پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے کرنسی نوٹ ختم کردی گئی ہے۔ واضح کردیا گیا ہے کہ جن لوگوں کے پاس پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹ ہیں، وہ انھیں ڈاک خانوں اور اپنے بینک کھاتوں میں جمع کرواسکیں گے اور جمع کروائی جانے والی رقم کے لئے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے جبکہ یہ رقم آپ کی ہی رہے گی۔ لیکن جن لوگوں کے پاس کالی دولت ہے، اگر وہ یہ رقم بینکوں میں جمع کرواتے ہیں تو انہیں محکمہ انکم ٹیکس کو جواب دینا ہوگا کہ یہ رقم ان کے پاس کہاں سے آئی اور اس پر انھوں نے ٹیکس کیوں جمع نہیں کروایا تھا؟ بینکوں میں یہ سہولت دس نومبر سے تیس دسمبر تک دستیاب رہے گی۔
آپسی تعاون کی ضرورت:
 یہ اعلان بھی ہوا ہے کہ منگل کو اور ملک کے کچھ علاقوں میں بدھ کو بھی اے ٹی ایم مشینیں بند رہیں گی۔ منگل کو بینک بھی صارفین کے لئے بند رہیں گے تاکہ وہ خود کو نئے نظام کے لئے تیار کرسکیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے دو ہزار روپے کا نیا نوٹ بھی متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئندہ چند دنوں تک بینکوں سے رقم نکالنے پر بھی کچھ پابندیاں عائد رہیں گی، یعنی کتنی رقم نکالی جاسکتی ہے، تاہم وزیر اعظم کے مطابق یہ پابندیاں جلد ہی ہٹا لی جائیں گی۔ حکومت کے اس اعلان کے بعد سو روپے کا نوٹ ہی سب سے بڑا نوٹ رہ جائے گا۔ بدعنوانی ایک بڑا مسئلہ ہے اور بعض تخمینوں کے مطابق ملک کی متوازی معیشت کی مالیت بھی کھربووں ڈالر ہے. حکومت اس رقم کو نکلوانا چاہتی ہے۔ ستمبر میں ہی ایک ایمنسٹی اسکیم ختم ہوئی ہے جس میں لوگوں کو کالا دھن ڈکلئر کرنے کی سہولت دی گئی تھی۔ ایسے میں چھوٹا موٹا دھندہ کرنے والے، ٹھیلہ کھینچنے والے، غریب مزدور اور ایسے لوگ جن کے پاس پیسے بدلوانے کی نہ تو مہلت ہے اور نہ ہی بینک اکاونٹ اور اے ٹی ایم کارڈ جیسی سولتیں میسر نہیں ہیں یا جنھیں اس تعلق سے معلومات میسر نہیں ہیں، ایسے لوگوں کی معاونت کی جائے، تاکہ وہ پریشان نہ ہوں…..جن افراد کو مکمل معلومات نہیں ہے ان کی رہنمائی کریں…یا ایسے افراد جن کے بنیادی کام رک رہے ہیں ان کی مدد کریں…..ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ امت کو نہ جانے اپنے فرائض منصبی کا ہوش کب آئے گا کہ چوراہے پر حادثات اسی صورت میں ہوتے ہیں کہ جب ٹریفک پولیس کا سپاہی ڈیوٹی پر نہیں ہوتا!

Money is a matter of…..
By S A Sagar

“Money is a matter of functions four – A medium, a measure, a standard, a store” (self.Bitcoin)
That is the classic Economics axiom I had learned years ago to remember the functions of money in an Economy. Today, as a Tech and Bitcoin enthusiast, I always wonder how much this holds true in relation to Bitcoin:
 It is a medium of exchange (you can trade in BTC for buying or selling goods).
 It is a measure of value (you can value your laptop for say 1.5 BTC).
 A standard currency unit (you can measure BTC against USD, 1BTC ~ 300USD).
 A store of value (you can convert your existing assets to a BTC wallet that acts as a store of value). The only thing working against the acceptance of BTC is perhaps resistance from Central Banks and Govts. However, this creates an interesting scenario in Economics. I wonder what John Maynard Keynes or Adam Smith would have said about Bitcoin as a currency if they were there today. Adam Smith, for one, had extreme faith in perfect competetion and the “Invisible Hand of market”. He would certainly have appreciated the Bitcoin from a Classical Economics perspective.
India ranks poorly:
India ranked 133rd in the index covering 183 nations, below neighbouring countries like Nepal (77), Bhutan (69) and Sri Lanka (31) and trailing behind the South Asian average. According to reports, October 28, 20116, India has ranked very poorly at 133 in a new Global Youth Development Index compiled by the Commonwealth Secretariat on the countries’ prospects for young people in employment, education, health, civic and political spheres. India ranked 133rd in the index covering 183 nations, below neighbouring countries like Nepal (77), Bhutan (69) and Sri Lanka (31) and trailing behind the South Asian average. However, the report released last week found that it has registered an 11 per cent improvement in scores over the last five years, highlighting the need for greater investment to reap the so-called demographic dividend. “One in five young people in the world on Friday live in India, which makes it one of the most youthful countries on the planet,” said Abhik Sen, the lead author of the ‘2016 Global Youth Development Index’ report. “While India’s overall rank is relatively low, it has registered an impressive improvement of nearly 11 per cent in its youth development scores in the period between 2010 and 2015. The research for this report also shows that youth development levels in India lag particularly in the domains of health, education and employment. Improvements in these sectors will give India a much better chance of reaping a handsome demographic dividend,” he said. The improvement in India’s score between 2010 and 2015 is explained by a significant rise in the proportion of young people with an account at a formal financial institution (58 per cent increase), reduction in the adolescent fertility rate (29 per cent fall), adoption of a new youth policy, and improvement in the gross secondary enrollment rate (9 per cent rise). The report highlights that India accounts for nearly 20 per cent of the global youth population, with nearly 345 million young people between the ages of 15 and 30 living in the country. This makes India one of the countries currently experiencing the most significant “youth bulge” – with nearly 27 per cent of its total population made up of young people. The areas where improvements are called for include education, employment opportunity and health and wellbeing. In India, one in every three children (31 per cent) is not enrolled in secondary schools, against a global score for the same indicator of 19 per cent. In the field of employment opportunities, India trails behind the rest of the world significantly, ranking 152nd. The top 10 countries on the index are largely from Europe – Germany (1), Denmark (2), Switzerland (4), United Kingdom (5), Netherlands (6), Austria (7), Luxembourg (8), Portugal (9) – with Australia (3) and Japan (10) as the two exceptions.
Summary of the important announcement :
1. Black money issue, 500 rupees and 1000 rupees banned from Midnight.
2. ATM’s wouldn’t wouldn’t work on 9th and 10th November. Rather the withdrawal limit is Rs. 2000 only.
3. All Residents have option till 30th December 2016, to deposit their existing cash balance of 500 and 1000 rupees in their bank accounts.
4. ATM withdrawal is limited post 11th Nov to 10000 per day, but initial few days it would be 2000 Rs. Only.
5. Emergency periods like hospitals and chemist, train ticket booking and airline ticket booking, petrol pumps may accept the old notes to 11th November.
6. No changes in online, card, cheque or any other plastic money transactions.
7. 9th November, banks wouldn’t be available for public banking services.
8. New notes of 500 rupees and 2000 rupees would bring in circulation, mostly from 31st March 2017.
9. This one is not clear, but old notes can be exchanged with rbi till 31st March 2017. I guess post 30th December.
……
2000 दो हजार रुपए के नए नोट

केंद्र सरकार ने 9 नवंबर से 500 और 1000 के पुराने नोटों को बंद कर दिया है। इनकी जगह अब 500 और 2000 रुपए के नए नोट जारी किए जाएंगे। आरबीआई के मुताबिक, जल्द ही दो हजार रुपए के नए नोट जारी होंगे। एक प्रेस ब्रीफिंग कर आरबीआई ने 500 और 2000 के नए नोट के 17 फीचर्स बताए हैं। गहरे गुलाबी रंग का होगा नया नोट…
– दो हजार रुपए का नया करेंसी नोट मैजेंटा (गहरा गुलाबी) रंग का होगा। इसमें महात्मा गांधी की नई सीरीज वाली फोटो होगी। (500-1000 के नोट बंद, लेकिन घबराए नहीं, रखें इन बातों का ध्यान- देखें वीडियो)
– नए नोट में किसी तरह का कोई लेटर नहीं होगा। इसके अलावा, इसमें आरबीआई के नए गवर्नर उर्जित पटेल के सिग्नेचर होंगे।
– नोट के पीछे की तरफ इसका प्रिंटिंग ईयर ‘2016’ पब्लिश होगा। वहीं, पीछे की ओर मंगलयान की फोटो होगी। नोट के आगे और पीछे का डिजाइन जियोमेट्रिक पैटर्न कलर के हिसाब से होगा।
फीचर्स में जानें नए 2000 के नोट की खासियत
#1. नोट के आगे की तरफ सी थ्रू रजिस्टर में दो हजार रुपए लिखा होगा। आइडेंटिफिकेशन मार्क के ऊपर दिखाई देने वाली फूल-सी आकृति सी थ्रू रजिस्टर के नाम से जानी जाती है। दो हजार के नोट में फूल की जगह इसका मूल्य होगा, जो रोशनी में दिखेगा।​
#2. नोट पर दो हजार की लेटेंट इमेज भी होगी। गांधीजी की फोटो के साइड में लेटेंट इमेज होती है। इसमें जितने का नोट है, उसकी संख्या लिखी होती है।
#3. नोट में देवनागरी में भी नोट की वैल्यू यानी 2000 लिखा होगा।
#4. इसके बीच में महात्मा गांधी की पोर्ट्रेट होगी।
#5. लेफ्ट साइड में छोटे अक्षरों में आरबीआई और दो हजार लिखा होगा।
#6. सिक्युरिटी थ्रेड में ‘भारत’, आरबीआई और 2000 लिखा होगा। नोट को झुकाने पर इसका कलर ‘थ्रेड ग्रीन’ से ‘ब्लू’ में बदलेगा।
#7. नोट के दाएं तरफ गारंटी क्लॉज, प्रॉमिस क्लॉज और गवर्नर के सिग्नेचर होंगे। वहीं, इसी तरफ आरबीआई का चिह्न भी होगा।
#8. नीचे से दाएं तरफ रुपए के सिंबल के साथ 2000 लिखा होगा। ये कलर चेंज इंक में लिखा है, जो ग्रीन से ब्लू रंग में बदलेगा।
#9.नोट के ऊपर से लेफ्ट साइड और नीचे से राइट साइड नंबर पैनल होगा। पैनल में नंबर छोटे से बड़े होंगे। कमजोर आंखों वालों के लिए महात्मा गांधी की पोर्ट्रेट, अशोक स्तम्भ और ब्लीड लाइन और आइडेंटिटी मार्क उभरा हुआ होगा।​
#10.दाएं तरफ 2000 का इलेक्ट्रोटाइप वाटरमार्क होगा
#11.नोट के दाएं तरफ ही अशोक स्तम्भ होगा।
#12.राइट साइड में रेकट्राएंगल का साइन उभरा हुआ होगा, जिसमें 2000 लिखा होगा।
#13.लेफ्ट और राइट साइड सात एंगुलर ब्लीड लाइन उभरी हुई होगी।

Leave a comment

Up ↑