ہندوستان میں مسلم دور حکومت

ایس اے ساگر
تاریخ پر نظر رکھنے والوں کی تحریر کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ  روز قیامت تک انسان کے لیے مکمل دین یعنی دین اسلام کا ظھور تو جزیرہ نما عرب میں ہوا مگر اس کے پیروکاروں  اور مبلغین نے اس کو تمام نوع انسانی تک پہنچانے  کے لیے دنیا کے ہر کونے کا رخ کیا۔ اسلام نے عربوں کے رہن سہن اور اخلاق و اطوار کو بدل کر رکھ دیا تھا اور عرب تاجر دنیا کے جس کونے میں بھی جاتے وہاں کے باشندے ان تاجروں کے حسن سلوک سے متاثر ہوۓ بغیر نہیں رہ سکتے تھے ۔برصغیر  ہند پاک میں بھی اسلام کا آغاز عرب تاجروں سے ہوا ۔ ان تاجروں سے متاثر ہو کر پہلے ساحل مالابار کی ریاست کدنگانور کے حکمران راجہ سامری نے اور بعد میں کالی کٹ کی بندرگاہ کے حکمران راجہ زمورن نے اسلام قبول کیا ۔ جب ان حکمرانوں نے اسلام قبول کیا تو ان کی رعایا بھی اپنے حاکموں کی  تقلید کرتے ہو ۓ مشرف بہ اسلام ہو گئی ۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ  چند سال سے فرقہ پرستوں نے ہندوستان سے اسلام اوراس کے پیروکار کی بیخ کرنے میں یہود و نصاریٰ کی پوری پوری نیابت اختیار کررکھی ہے۔ مسلم نسل کشی کا ننگا ناچ، اسی طرح کبھی مسلمانوں کی پرسنل لا میں مداخلت، کبھی دینی مدارس کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینا…مسلم حکمرانوں خاص طور پر حضرت عالمگیر رحمہ اللہ کی جانب سے لوگوں میں اس قدر پروپیگنڈہ کرنا کہ غیر تو غیر اپنے بھی اسی پرفریب سیلاب میں بہہ پڑیں…لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی جنم لینے لگا کہ آیا ہندوستان میں مسلمانوں کا ورود باعث رحمت ہے یا زحمت؟ متعصب مورخین کی دوغلی پالیسی کے علی الرغم اکثر لوگوں کا زاویہٴ فہم اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ مسلم حکمراں نے ہندو پر تشدد نیز ان کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کی ہے، اور مذہبی آزادی سلب کی تھی؛ لیکن روشن سورج کو جھٹلانے پر تاریکی ہرگز طاری نہیں ہوسکتی۔

ورود اسلام سے قبل ہندوستان کا مذہب

ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے کی حالت کاسرسری جائزہ بھی ناگزیر ہے۔ ہندوستان میں اسلام سے پہلے بدھ مذہب کے پیروکار تھے، اور بہت ہی قلت کے ساتھ برہمنی مذہب کا بھی پتہ چلتا ہے؛ لیکن اتنی بات پایہٴ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اس وقت آرین مذہب کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی؛ بلکہ بدھسٹ کا اپنی خیرات تقسیم کرتے وقت جہاں دیگر مستحقین لائن میں ہوتے تھے وہاں برہمنوں کی قطار بھی ہوتی تھی (مختصر تاریخ ہند ۱/۱۱۷-۱۱۸، از مسٹر ہنٹر) لیکن اس کے باوجود برہمن ”بدھ“ مذہب کو ختم کرکے آرین مذہب قائم کرنا چاہتے تھے۔ مورخ اسلام اکبرشاہ خاں رحمہ اللہ کے حوالے سے چین کے مشہور عالم ”ہیونگ شیانگ“ نے ہندوستان کی سیاحت میں پندرہ سال ۶۳۰-۶۴۵/) تک گزارے ہیں، اتنی ہی مدت میں ہندوستان کے چپہ چپہ کی سیر کرلی، اور ہرمقامات پر اپنے ماننے والوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ چناں چہ دوران سفر کئی جگہ ڈاکوؤں کے پنجے میں گرفتاری کا ذکر بھی کرتا ہے، اور ہمیشہ ان (لٹیروں) کو کافر اور بے دین بتاتا ہے حالانکہ وہ برہمنی مذہب کے پیروکار اور بدھ کے مخالف تھے۔ (آئینہ حقیقت نما،ص:۸۴)

اسلام سے پہلے ہندوستان کی مذہبی حیثیت

ہندوستان میں بدھ مذہب کو راجا ”اشوک“ کے زمانے میں کافی ترقی ملی؛ لیکن اس کے بعد اس کے شہنشاہی ٹکڑوں میں منقسم ہوگئی جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ بدھ کی اصل تعلیمات مسخ ہوگئیں اور عبادت و اخلاق کی بنیاد کھوکھلی ہوکر رہ گئی کیوں کہ اشوک کے عہد کو ۹/سوبرس اور گوتم بدھ کے زمانے کو تقریباً ۱۲/سو برس ہوچکے تھے، (آئینہ حقیقت نما،ص:۸۵-۸۶) چناں چہ پورا معاشرہ بت پرستی و بد عقیدگی اور شدت پسندی کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ اسی زمانے کے احوال کی نقاب کشائی اکبر شاہ اس طرح کرتے ہیں کہ : ”یہاں (سندھ) میں عام طور پر بت پرستی رائج تھی، مجرموں کی شناخت کے لیے ان کو جلتی ہوئی آگ میں گذارنے کا عام رواج تھا، اگر آگ میں جل گیا تو مجرم اور بچ گیا تو بے گناہ تھا۔“

پھر مزید کچھ آگے فرماتے ہیں کہ: جادو کا عام طور پر رواج تھا، غیب کی باتیں اور شگون کی تاثیرات بتانے والوں کی بڑی گرم بازاری تھی، محرمات ابدی کے ساتھ شادیاں کرلینے میں تامل نہ تھا، چناں چہ راجا داہر نے اپنی حقیقی بہن کے ساتھ پنڈتوں کی ایماء سے شادی کی تھی، راہزنی اکثر لوگوں کا پیشہ تھا، ذات باری تعالیٰ کا تصور معدوم ہوکر اعلیٰ و ادنیٰ پتھر کی مورتوں اور بتوں کو حاجت روا سمجھتے تھے۔“ (آئینہ حقیقت نما،ص:۱۷۴-۱۷۵)

اسی دور کا تذکرہ کرتے ہوئے علی میاں ندوی رحمہ اللہ ”منو شاستر“ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ: ”اس وقت عام طور پر ہندو مذہب نت نئے دیوتاؤں یہاں تک کہ آلہٴ تناسل تک کا پوجا جانا بھی بڑی اہمیت رکھتا تھا (اورآج بھی یہ طریقہ ہندوؤں میں رائج ہے، لاحول ولا قوة الا باللہ)“ طبقہ واریت بے انتہا تھی یہاں تک کہ ایک قوم ”شودر“ نامی ہے جس کے متعلق منوشاستر،ص:۶ پر ہے: ”اگر کوئی شودر کسی برہمن کو ہاتھ لگائے یا گالی دے تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے، اگر اس کا دعویٰ کرے کہ اس (کسی برہمن) کو وہ تعلیم دے سکتا ہے تو کھولتا ہوا تیل اس کو پلایا جائے، کتے، بلی، مینڈک، چھپکلی، کوے، الو اور ”شودر“ کے مارنے کا کفارہ برابر ہے۔“ یعنی اگر برہمن کا کوئی شخص دوسری ذات والے کو قتل کردے تو فقط اس کی اتنی سی سزا کہ اس کا سرمنڈوادیا جائے اوراس کے برعکس دوسری قوم کے لوگ برہمن کے سامنے لب کشائی بھی کریں تو ان کی جان کے لالے پڑجائیں۔ یہ تھی ہندی مذہب کی ادنیٰ جھلک۔

عرب وہند کے تعلقات کا پس منظر

بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے ہندوستان کے مختلف قبائل: زط (جاٹ)، مید، سیابچہ یا سیابجہ، احامرہ، اساورہ، بیاسرہ اور تکرّی (ٹھاکر) کے لوگوں کا وجود بحرین، بصرہ، مکہ اور مدینہ میں ملتا ہے۔ چناں چہ ۱۰ ہجری میں نجران سے بنوحارث بن کعب کے مسلمانوں کا وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا: ”یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانی معلوم ہوتے ہیں“ (تاریخ طبری ۳/۱۵۶، بحوالہ برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش از محمد اسحق بھٹی)

مزید اسحق بھٹی اپنی مذکورہ کتاب میں فرماتے ہیں: ”کتب تاریخ و جغرافیہ سے واضح ہوتا ہے کہ جاٹ برصغیر سے ایران گئے اور وہاں کے مختلف بلاد و قصبات میںآ باد ہوئے اور پھر ایران سے عرب پہنچے اور عرب کے کئی علاقوں میں سکونت اختیار کرلی“ (ایضاً،ص:۱۸) نیز تاریخ میں ان قبائل کا۔ بزمانہٴ خلافت شیخین (حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مسلمان ہونے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ (ایضاً،ص:۲۵) خلاصہ یہ کہ یہ قبائل عرب کے ساتھ گھل مل گئے ان قبائل میں سے بعضوں کے بہت سے رشتہ دار تھانہ، بھڑوچ اور اس نواح کے مختلف مقامات میں (جوبحرہند کے ساحل پر تھے) آباد تھے۔

بالآخر عرب و ہند کے درمیان شدہ شدہ مراسم بڑھتے گئے یہاں تک کہ برصغیر (متحدہ ہند) اور عرب کا باہم شادی و بیاہ کا سلسلہ بھی چل پڑا، اس ہم آہنگی کی سب سے اہم کڑی عرب و ہند کے تجارتی تعلقات تھے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے نت نئے اشیائے خوردونوش وغیرہ: ناریل، لونگ، صندل، روئی کے مخملی کپڑے، سندھی مرغی، تلواریں، چاول اور گیہوں اور دیگر اشیاء عرب کی منڈیوں میں جاتی تھیں۔ (ایضاً،ص:۲۹) اس واقعے کی تصریح ایک مصری مورخ یوں کرتا ہے: جنوبی عرب سے آنے والے تجارتی قافلوں کی ایک منزل مکہ مکرمہ تھا، یہ قافلے ہندوستان اور یمن کا تجارتی سامان شام اور مصر کو لے جاتے تھے، اثنائے سفر میں یہ لوگ مکہ مکرمہ میں قیام کرتے اور وہاں کے مشہور کنوئیں”زمزم“ سے سیراب ہوتے اوراگلے دن کے لیے بقدر ضرورت زمزم کا پانی ساتھ لے جاتے تھے۔“ (عرب و ہند عہد رسالت میں بحوالہ الجمل فی تاریخ الادب العربی،ص:۲۷)

ہند میں طلوع اسلام

یوں تو لوگوں میں مشہور ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی روشنی بزورِ تیروشمشیر سب سے پہلے سرزمین سندھ پر پڑی؛ لیکن یہ واقعہ ۹۳ ہجری کا ہے جب کہ اس سے بہت پہلے بعہد فاروقی ۱۵ھ ہی میں مالا بار، اور سراندیپ کے علاقوں میں اسلام کی خوشبو پھیلنا شروع ہوگئی تھی اور سلسلہ وار عہد عثمانیہ سے خلافت امیہ تک یکے بعد دیگرے بہت سے حضرات رسالت و توحید کی روشنی جنوبی ہند میں لاکر اس علاقے کے گوشہ گوشہ کو روشن کرنے میں ہمہ تن منہمک تھے، اور اسلام کسی خلل و رکاوٹ کے بغیر پھیل رہا تھا اور لوگوں کے ذہن ودماغ کو مسخر کیے جارہا تھا؛ یہی وجہ ہے کہ مالابار کا راجا ”زمورن یا سامری“ نے معجزہ شقِ قمر کا چشم دید مشاہدہ کیا اور تاریخ و دن محفوظ کرکے تحقیق شروع کردی ․․․ معلوم ہوا کہ عرب میں ایک پیغمبر پیدا ہوئے ہیں انھی کا یہ معجزہ تھا۔ (آئینہ حقیقت نما،ص:۷۱-۷۲، از مورخ اسلام اکبرشاہ خاں نجیب آبادی)
الحاصل راجا نے بسروچشم اسلام قبول کرلیا اور اپنی سلطنت ترک کرکے سراپا ہدایت و رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ اشتیاق میں ان کے کوچے کی طرف چل پڑا؛ لیکن وقت کا – سوائے خدا کسی کو علم نہیں- قبل اس سے کہ وہ اپنی تشنگی بجھاتا دل کی ارماں دل ہی میں لیے ہوئے مالکِ حقیقی سے جاملا۔ راجہ داہر کے سیاہ کرتوت اوراس کے ہمراہیوں کی دراندازی کے محمد بن قاسم کا ہندوستان

مسلم دور حکومت
تاہم ہندی سے ترجمہ کے حوالہ سے شہباز بخت رقمطراز ہیں کہ آٹھویں صدی عیسوی کے دوران ہی محمد بن قاسم آئے۔ آپ نے ہندوستان کی سر زمین پر مسلم حکمرانی کا پرچم لہرا دیا تھا.

1. عامر نصیرالدین سبكتگين،
حکومت 13 سال (984-997ء)
2. محمود غزنوی،
حکومت 32 سال (  998 تا 1030 ء)
3. سلطان شہاب الدین غوری،
حکومت 31 سال (1175-1206 ء)
4. سلطان قطب الدین ایبک،
حکومت 4 سال (1206-1210 ء)
—————————————
غلام خانوادے سے
5. سلطان شمس الدین التمش،
حکومت 24 سال (1211-1235 ء)
6. رضیہ سلطان (سلطان شمس الدین التمش کی بیٹی) (1236-1246 ء)
7. سلطان نصیرالدین محمود،
حکومت 20 سال (1246-1266 ء)
8. سلطان غياث الدين بلبن،
حکومت 21 سال (1266-1287ء)
—————————————
خلجی خانوادہ
9. سلطان جلال الدین خلجی،
حکومت 6 سال
(13 جون1290 تا 20 جولائی 1296)
10. سلطان علاؤالدین خلجی،
حکومت 20 سال (1296-1316 ء)
—————————————
تغلق خانوادہ
11. سلطان غیاث الدین تغلق،
حکومت 4 سال (1321-1325 ء)
12. سلطان محمد شاہ تغلق،
حکومت 27 سال (1352- 1325 ء)
13. سلطان فیروز شاہ تغلق،
حکومت 35 سال (1352-1387 ء)
—————————————
سید خانوادہ
14. خضر خاں،
حکومت 7 سال (1414-1421ء)
15. مبارک شاہ،
حکومت 13 سال (1421-1434ء)
16. محمد شاہ،
حکومت 11 سال (1434-1445ء)
17. المشاه شاہ،
حکومت 6 سال (1445-1451ء)
—————————————
لودھی خانوادہ
18. سلطان بحلول لودھی،
حکومت 37 سال (1451-1488ء)
19. سلطان سکندر لودھی،
حکومت 29 سال (1488-1517 ء)
20. سلطان ابراہیم لودھی،
حکومت 9 سال (1517-1526ء)
—————————————
مغل خانوادہ
21. شہنشاه *ظہیر الدین بابر،
حکومت 4 سال (1526-1530)
22. شہنشاه ہمایوں،
حکومت (پہلا دور ) 10 سال (1530-1540ء)
—————————————
سوری خانوادہ
23. شیر شاہ سوری،
حکومت 5 سال (1540-1545)
24. اسلام شاہ سوری،
حکومت 8 سال (1545-1553)
25. فیروز شاہ سوری، (1553)
26. محمد شاہ عادل، (1553)
27. ابراہیم شاہ سوری،
حکومت 3 سال (1553-1555)
28. سکندر شاہ سوری، (1555)
29. عادل شاہ سوری، (1555)
—————————————
مغلوں کی واپسی
22. شہنشاہ ہمایوں،
حکومت ( دوسرا دور )
1 سال (1555-1156ء)
30. شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر،
حکومت 49 سال (1556-1605ء)
31. شہنشاہ نورالدین جہانگیر،
حکومت 22 سال (1605-1627)
32. شہنشاہ شاہجہاں،
حکومت 31 سال (1627-1658)
33. اورنگزیب عالمگیر (رحمہ اللہ)
حکومت 49 سال (1658-1707)
34. محمد احمد شاہ،
حکومت صرف کچھ وقت تک کے لئے،
14 مارچ، 1707 سے 8 جون، 1707 تک.
35. بہادر شاہ الاول، حکومت 5 سال (1707-1712)
36. جہاں دار شاہ،
حکومت 1 سال (1712-1713)
37. فرخ شیر،
حکومت 6 سال (1713-1719)
38. رفیع الدین،
حکومت صرف کچھ مہینوں کے کیلئے،
28 فروری 1719 تا 6 جون 1719 تک
39. شاہجہاں
حکومت صرف کچھ مہینوں کے کیلئے،
6 جون 1719-تا 19 ستمبر 1719
40. محمد شاہ،
حکومت 29 سال (1719-1748)
41. احمد شاہ،
حکومت 6 سال (1748-1754)
42. عالمگیر ثانی عرف عالمگیر، حکومت 5 سال (1754-1759)
43. شاہ عالم،
حکومت 47 سال (1759-1806)
44. جہاں شاہ،
حکومت صرف کچھ وقت کے لئے،
31 جولائی 1788-16 اکتوبر 1788
45. اکبر ثانی،
حکومت 31 سال (1806-1837)
46. بہادر شاہ ظفر،
حکومت 20 سال 42 دن (1837-1857)
—————————————
710 سے 1857 کا وقت وقفہ 1،147 سال ہوتا ہے، اس حساب سے 1،147 سال ہندوستان کی تاریخ کا باب مسلم حکومتوں کے رنگے ہوئے میں رنگا ہوا ہے.
1857 سے 2016 تک، مطلب کے تقریبا 159 سال ہو گئے لیکن پھر کوئی مسلم ہندوستان کا حکمران نہیں بن سکا. ان 159 سال میں سے تو 90 سال (1857-1947) تک تو ہم انگریزوں کے غلام رہے،
لیکن 1947 سے 2016 تک 69 سال آزاد ہوئے ہو گئے لیکن ہم مسلمانوں کی حالات بدتر ہو گئی ہے. کل ہم نے ہزاروں سال حکومت کی اور آج ہم کہہ رہے ہیں کہ محکومیت کی وجہ فرقہ پرستی اور علم کی کمی ہیں…

Leave a comment

Up ↑